’’شادی کے بعد میں سسرال آئی تو وہاں میرے شوہر کی پہلے سے ایک بیوی موجود تھی ، لیکن میری سوتن نے مجھ پر یہ احسان کیا کہ ۔۔۔‘‘ معصوم سی لڑکی کو اُسکے شوہر کی دوسری بیگم نے کیسے بچالیا؟
کم عمری کی شادیوں کا مسئلہ کسی نا کسی حد تک دنیا کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے مگر افریقی ملک سوڈان میں تو یہ صورتحال ایک المیے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ برسوں کی خانہ جنگی کے باعث غربت کی چکی میں پسنے والے والدین اکثر اپنی بچیوں کی انتہائی کم عمری میں اور ان سے اتنی بڑی عمر کے مردوں
سے شادی کر دیتے ہیں کہ سن کر یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ گیارہ سالہ امل بھی ایک ایسی ہی المناک مثال ہے جس کی شادی محض 11سال کی عمر میں ایک 38سالہ مرد سے کر دی گئی۔ یہ بدبخت شخص کمسن امل کے لئے ایسا درندہ ثابت ہوا کہ جس کے ظلم سے تنگ آ کر وہ گھر سے بھاگنے پر مجبور ہو گئی اور اب اس کم عمری میں ہی طلاق کے لئے عدالتوں کے دھکے کھانے پر مجبور ہے۔
امریکی ٹی وی CNNکی رپورٹ کے مطابق امل سیکنڈری سکول کی طالبہ تھی جب ایک 38سالہ مرد نے اُس کا رشتہ مانگا اور اُس کے باپ نے فوراً ہاں کہہ دی۔ امل کا کہنا ہے کہ اُس کی مرضی کے خلاف اور سخت احتجاج کے باوجود اس کی شادی کردی گئی۔ اُس کی کمسنی کے باوجود اُس کا خاوند زبردستی اس کے ساتھ جنسی تعلق استوارکرتا تھا اور مزاحمت پر اُسے بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔
امل کا کہنا ہے کہ اس کا خاوندپہلے سے شادی شدہ تھا لیکن اسے اس بات کا تب ہی معلوم ہوا جب وہ شادی کے بعد اپنے سسرال پہنچی۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ یہ خاتون اس کی ہمدرد ثابت ہوئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا خاوند اس معصوم لڑکی کو اپنی جنسی ہوس پوری کرنے کے لئے لایا تھا اور اس بات پر سخت برہم بھی تھی۔
دوسری جانب امل کا خاوند نہایت سفاک واقع ہوا تھا۔ وہ زبردستی اس کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرتا تھا اور جب بھی وہ مزاحمت کی کوشش کرتی تھی تو وحشیانہ تشدد پر اتر آتا تھا۔ وہ بدبخت سگریٹ سلگا لیتا اور پھر اُسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیتا۔ ایک جانب وہ کش لگاتا اور دوسری جانب اُسے تھپڑوں کا نشانہ بناتا تھا۔
بدقسمت بچی نے بتایا کہ جب وہ مدد کی فریاد لے کر اپنے والد کے پاس جاتی تو وہ اُسے واپس بھیج دیتا۔ یہ افسوسناک صورتحال دیکھ کر بالآخر اس کی سوتن کو ہی اُس کی حالت پر رحم آیا اور اس نے فرار ہونے میں اس کی مدد کی۔ سوتن کی مدد سے وہ گھر سے بھاگ کر پولیس اسٹیشن پہنچی جہاں اپنے ساتھ پیش آنے
والے سلوک کی ساری تفصیلات بیان کیں ۔ میڈیکل معائنے کیلئے اُسے ہسپتال بھیجا گیا جہاں ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اُس کے جسم پر رسیوں سے باندھ کر تشدد کرنے کے نشانات موجود ہیں۔
طبی رپورٹ اور دیگر شواہد کی بناء پر امل نے طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ اگرچہ سوڈان میں اس نوعیت کے مقدمات میں خواتین کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور فیصلے بھی جلد نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود یہ کمسن لڑکی حیرت انگیز ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ا س کا کہنا ہے کہ راستے میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں لیکن وہ پرعزم ہے کہ اپنے ظالم شوہر سے طلاق حاصل کرے گی اور اس کی قید سے آزاد ہو کر ایک بارپھر سکول جائے گی تا کہ اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔