مولانا سمیع الحق کو قتل کرنے والا نوجوان دراصل کون نکلا جسے یہ بھی معلوم تھا کہ۔۔۔۔ تحقیقات میں دنگ کر دینے والا انکشاف

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو گزشتہ دنوں نجی ہائوسنگ سوسائٹی میں ان کے گھر میں شہید کردیاگیا تھا اور ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مولانا سے ملاقات کیلئے دو نامعلوم افراد آئے تھے جنہوں نے اکیلے میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن اب ان سے ملاقات کرنیوالوں کے نام بھی سامنے آگئے ،۔ روزنامہ خبریں کے مطابق مولانا سمیع الحق کے لواحقین سے قبل ہسپتال پہنچنے والے جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل نے بتایاکہ مولانا کے جسم پر زخم زیادہ گہرے نہیں تھے ، ہوسکتا ہے چھری کند ہو اور ابتدائی خبروں میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ قاتل کوئی معمولی ان پڑھ شخص نہیں تھا۔ 20,19 سالہ نوجوان جس کا نام بعض لوگوں نے گل خان بتایا اپنے نسبتاً بڑی عمر کے ساتھی کے ساتھ مولانا کے گھر پہنچا اور علیحدگی میں

ملنے کی خواہش ظاہر کی۔گل خان ”راُُ یا کسی اور ایجنسی کا تربیت یافتہ لگتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ خون کی نازک نسیں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں اس نے مولانا پر وار کرنے کے ساتھ چھری سے ان نازک نسوں کو کاٹا جس کی وجہ سے خون کے فوارے ابلنے لگے، جسم میں نازک نسیں جو خون لے کر جاتی ہیں، اس کا علم عام شخص کو نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دوسری جانب ے یو آئی س کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی تحقیقات کیلئے ایس پی انویسٹی گیشن سردار غیاث گل کی سربراہی میں 7 رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ اس ٹیم پر ایس پی پوٹھوہار، ایس ڈی پی او سول لائنز، ایس ایچ او ائیرپورٹ عامر خان، ہومی سائیڈ یونٹ کے

انچارج انسپکٹر محمد جمیل اور دو سب انسپکٹرز شامل ہیں،اب تک ڈاکٹر اور مولاناسمیع الحق کے ساتھی احمد شاہ کا بیان ریکارڈ کیاجاسکا ، ابتدائی تفتیش کے مطابق قاتل کچن کے راستے گھر سے فرار ہوئے جبکہ احمد شاہ وغیرہ لوگ باہر سے واپس آکر گھر کے کام کاج میں لگ گئے۔روزنامہ ایکسپریس کے مطابق سی پی او راولپنڈی عباس احسن نے قانون تقاضے پورے کرنے کیلئے مولانا کے بیٹوں کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن انہوں نے سختی سے انکار کیا اور پوسٹ مارٹم کرانے کی صورت میں ملک بھر میں احتجاج کا عندیہ دیا جس کے بعد انتظامیہ نے اس سے تحریر حاصل کرنے کے بعد میت ان کے حوالے کی۔ ذرائع کے مطابق پوسٹمارٹم نہ ہونے سے پولیس کو تفتیش درست رخ پر آگے بڑھانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ تفتیش سے جڑے سینئر پولیس افسر نے اخبار کو بتایا کہ مولانا کے قتل کے حوالے سے صرف ہسپتال کے ڈاکٹر اور مولانا کے ساتھی احمد شاہ کا ابتدائی بیان ہی ریکارڈ کیا جاسکا ہے۔ ڈاکٹر کی رائے ہے کہ جب مولانا

سمیع الحق کو ہسپتال لایا گیا تو ان کے جسم سے خون بہنا بند ہوچکا تھا انہیں جاں بحق ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ گزرچکا تھا۔پولیس افسر کے مطابقمولانا کے ساتھ صرف احمد شاہ ہی تھا،اس کے علاوہ ان کے اہلخانہ سمیت کوئی دوسرا شخص نہیں تھا۔ احمد شاہ کا ابتدائی بیان ہے کہ مولانا سمیع الحق کو بیڈ روم میں آرام کیلئے چھوڑ کر گھر کو مکمل لاک کرنے کے بعد پانی وغیرہ لینے گیا اور واپس پہنچا تو گھر کھول کر کام میں مشغول ہوگیا، کافی دیر تک کسی قسم کی آواز وغیرہ نہیں آئی تو کمرے میں جاکر دیکھا تو مولانا خون میں لت پت پڑے تھے۔ پولیس ذرائع نے بتایا قاتل جن کی تعداد معلوم نہیں، یا تو گھر میں پلاننگ کے تحت پہلے

سے چھپے بیٹھے تھے یا پھر گھر کی چابیاں وغیرہ پاس رکھتے تھے تاہم واردات کے بعد قاتلوں نے فرار کیلئے گھر کے کچن کا راستہ استعمال کیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق مولانا کا ساتھی احمد شاہ واقعہ کے بعد مولانا کی میت کے ساتھ اکوڑہ خٹک چلاگیا جسے شامل تفتیش کرنے کیلئے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔راولپنڈی پولیس کے انسپکٹر کی سربراہی میں ایک ٹیم اکوڑہ خٹک بھی گئی جس کو مولانا کے لواحقین کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ چند دن کے بعد پولیس کو جو تعاون اور لوگ تفتیش میں مدد کیلئے درکار ہوں گے وہ فراہم کئے جائیں گے۔ ادھر پولیس کو مولانا اور ان کے ساتھی کے موبائل فون سے بھی ابتدائی طور پر کوئی مدد نہیں مل سکی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن فیض آباد دھرنے کے باعث موبائل فون سروس معطل تھی اور واردات سے قبل نہ تو

موبائل فون سے کوئی کال کی گئی نہ آئی کال وصول ہوئی تاہم واردات سے قبل چند دنوں کے دوران مولانا اور ان کے ساتھیوں سے کون کون رابطے میں رہا اس کیلئے موبائل فونز کا فرانزک تجزیہ جاری ہے۔دوسری طرف این این آئی کے مطابق پولیس نے مولانا سمیع الحق کے قتل کے شبہ میں چھ افرا دکو گرفتار کرلیا ہے جن کے فنگر پرنٹس لے لئے گئے ہیں۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.