ملا عمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈے سے تین میل کے فاصلے پر رہتا رہا اور کیا کبھی پاکستان آیا ؟ ہالینڈ کے معروف صحافی نے اپنی کتاب میں بڑا دعویٰ کر دیا
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے صحافی ” بیٹے ڈیم “ نے نئی کتاب شائع کی ہے جس میں انہوں نے ملا عمر کے بارے میں بڑے دعوے کیے ہیں اور ان کا کہناہے کہ طالبان کے بانی سمجھے جانے والے رہنما ملا عمر نائن الیون کے بعد کبھی پاکستان نہیں آئے بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے کے بہت قریب رہائش پذیر رہے، امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔
تفصیلات کے مطابق کتاب ” سیکریٹ لائف آف ملا عمر “ میں انہوں نے کہا ہے کہاکہ امریکی حکام یہ سمجھتے رہے کہ ملا عمر پاکستان میں چھپا ہوا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا ، ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔
ہالینڈ کے صحافی بیٹے ڈیم نے اپنی کتا ب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے جس دوران انہوں نے متعدد طالبان رہنماﺅں سے گفتگو بھی کی ۔ صحافی نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے جبار عمری کا بھی انٹرویو کیا ۔کتاب میں انہوں نے لکھا کہ جبار عمری نے بتایا ملا عمر کو 2013 تک پنا دی تھی جب طالبان رہنما بیماری کے سبب انتقال کر گئے ۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ملا عمر کو امریکی اڈے کے قریب خفیہ کمروں میں پناہ دی گئی تھی۔ ملا عمر کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔صحافی نے اپنی کتاب میں دعوی کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔اس کے بعد انھوں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے صرف تین میل کے فاصلے پر ایک اور امریکی اڈہ تھا جہاں 1000 فوجیوں کا قیام تھا۔صحافی بیٹے ڈیم کہ مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا عمر خبروں کے حصول کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس کا استعمال کیا کرتے تھے۔