ممبئی حملوں کے پیچھے کون کون سے ممالک تھے؟ جرمن صحافی کے انکشاف نے ساری کہانی شیشے کی طرح واضح کر دی

جرمن صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ ممبئی حملہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ کا گٹھ جوڑ تھا۔ ممبئی حملوں کو لے کر پاکستان کو دباؤ میں لانے کے پرانے حربے کو پھر سے استعمال کرنے کے غبارے سے ہوا خود بھارت میں شائع ہونے والی تحقیقاتی کتاب ’’Betrayal of India Revisiting the 26/11 Evidence‘‘ نے

ہی نکال دی ہے ۔ ممبئی حملوں سے متعلق ہوشربا انکشافات اور حقائق پر مبنی تجزیے پر مشتمل یہ کتاب بھارتی پبلشر فروز میڈیا، نیو دہلی کی شائع کردہ ہے ۔ مصنف معروف تحقیقاتی صحافی ایلیس ڈیوڈسن ، جن کا تعلق یہودی مذہب اور جرمنی سے ہے ، کی غیرجانبداری نے سامنے لائے گئے حقائق کو مصدقہ اور قابل بھروسہ بنا دیا ہے ۔

2017 میں سامنے آنے والی اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دہلی سرکار اور بھارت کے بڑے اداروں نے حقائق مسخ کئے ، بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی اور سچائی سامنے لانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی۔ ممبئی حملوں کے مرکزی فائدہ کار ہندو انتہا پسندو قوم پرست رہے کیونکہ ان حملوں کے نتیجے میں ہیمنت

کرکرے اور دوسرے پولیس افسران کو راستے سے ہٹایا گیا۔ انتہا پسند تنظیموں کیساتھ ساتھ نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے کاروباری، سیاسی اور فوجی عناصرکو بھی اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے ان حملوں کا فائدہ پہنچا جبکہ ایلیس ڈیوڈسن اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ ممبئی حملوں کا پاکستانی حکومت اور فوج کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات کے مطابق ممبئی دہشتگرد حملوں کے حقائق چھپانا بھارتی سکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت حقائق میں جان بوجھ کر کی گئی ہیرا پھیری تھی۔

اس کیس کی عدالتی کارروائی بھی غیرجانبدار نہیں تھی بلکہ اہم ثبوت اور گواہوں کو نظرانداز کیا گیا۔ مصنف نے ممبئی حملوں کو خفیہ آپریشنز طرز کے حملے قرار دیا جس سے یہ تاثر قائم کیا گیا کہ بھارت کو دہشتگردی سے مستقل خطرہ ہے ۔ اس سے بھارت کو دہشتگردی کی عالمی جنگ کے لیڈنگ ممالک کیساتھ کھڑا ہونے میں مدد ملی۔ ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے اور دوسرے پولیس افسروں کے قتل کے حوالے سے اہم اطلاعات کو بھی چھپایا گیا۔مصنف نے اجمل قصاب والے پہلو پر بھی بھرپور توجہ

دی۔ ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ممبئی حملوں کے ان متاثرین اور گواہوں کے بیانات نہیں لئے گئے جو واقعے کے سرکاری بیانیے کو اپنانے پر تیار نہ ہوئے ۔ ان گواہوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے نریمان ہاؤس میں حملوں سے دو روز قبل اجمل قصاب اور چند دیگر افراد کو اکٹھا ہوتے دیکھا۔ کچھ مقامی دکاندار اور رہائشیوں نے یہ گواہی بھی دی کہ شدت پسند کم از کم پندرہ دن نریمان ہاؤس میں رہتے رہے ۔کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کئی گواہوں کو سکھایا گیا کہ کس طرح انہیں سرکاری مؤقف اختیار کرنا ہے ۔ بھارتی اور اسرائیلی حکومتیں نریمان ہاؤس واقعے سے متعلق ثبوت گھڑتی رہیں اور مرضی کی گواہیاں حاصل کرنے میں ملوث

نظر آئیں۔ دہشتگردوں کے سہولت کار فون نمبر 012012531824 استعمال کرتے رہے جو امریکہ میں تھا۔اجمل قصاب کے اقبالی بیان کے مطابق وہ ممبئی حملوں سے بیس دن پہلے گرفتار کیا گیا اور پھر ملوث کیا گیابعد ازاں اجمل قصاب اپنے اس بیان سے مکر گیا۔ مصنف نے اپنے تجزیئے میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ دعوی کیا گیا کہ قصاب پورے تاج ہوٹل کو اڑانا چاہتا تھا، تاہم اس مقصد کیلئے اس کے پاس آٹھ آٹھ کلو کے محض چار بم تھے جو بہت ہی ناکافی تھے ۔(م،ش)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.