’’ممی! مجھے مرے ہوئے لوگ دکھائی دیتے ہیں‘‘
دنیا میں ایسے لوگوں اور بالخصوص ایسے بچوں کی کوئی کمی نہیں جنہیں وہ بچے بھی دکھائی دیتے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں یعنی اب وہ زندہ نہیں ہیں۔ مگر کیا یہ سچ ہے کہ ان بچوں کو ایسے نادیدہ افراد نظر آتے ہیں جو واقعی اب اپنا وجود نہیں رکھتے، بلکہ یہ بچے تو ان کے بارے میں پوری تفصیل بھی بتادیتے ہیں کہ وہ کون ہیں، کیسے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔
حال ہی میں لندن میں ایک ایسی کہانی بھی منظر عام پر آئی جہاں کچھ بچوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ نہ صرف مرے ہوئے بچوں سے باتیں کرتے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں، بلکہ کچھ بچوں نے تو اپنی آں جہانی نانی یا دادی سے موت کے بعد ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
تین سالہ Rosalynنے اپنی ممی ریبیکا ایوانز کو بتایا تھا کہ اس کے مردہ دوست بھی ہیں۔ مسز ایوانز ایک صحافی ہیں، ان کا کہنا ہے:’’میں نے اپنی بیٹی سے کبھی موت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی، گویا میں نے اسے زندگی اور موت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ لیکن بعد میں ریکارڈز سے یہ پتا چلا کہ ان بچوں نے جن مردہ دوستوں کی بات کی تھی، ان کے نام1800کے عشرے میں ریکارڈز میں مل گیا۔‘‘
ریبیکا کہتی ہیں کہ میری تین سالہ بیٹیRosalynنے بڑی خوشی خوشی ہمیں یہ بتایا کہ میری ایک نئی دوست ہے جو سب سے اچھی ہے، جب میں نے روزیلن سے اس کا نام پوچھا تو اس نے جواب دیا:’’وہ ٹلی ہے۔ اور وہ ہمارے ہی گھر میں رہتی ہے۔ وہ میری بہترین دوست ہے اور وہ مرچکی ہے۔
اسی طرح ایلکس بھی میرا بہترین دوست ہے اور وہ بھی مرچکا ہے۔اس کی ممی اور دادا بھی مرچکے ہیں۔ ہم سب بچے مل کر کھیلتے ہیں۔‘‘ میری بیٹی روزیلن نے یہ باتیں بتاکر مجھے حیران کردیا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ کوئی فرضی باتیں نہیں ہیں بلکہ میری بیٹی نے بڑے ٹھوس اور مضبوط لہجے میں ہمیں بتایا کہ یہ سب بالکل سچ ہے۔ اس کی باتیں سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہریں دوڑ گئیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایک زندہ بچی، مردہ بچوں کے ساتھ کیسے باتیں کرسکتی ہے اور وہ مردہ بچوں کے ساتھ کیسے کھیل سکتی ہے۔ اس کی باتیں سن کر میں اندر تک لرز کر رہ گئی تھی، مگر میری بیٹی بڑے وثوق سے کہہ رہی تھی کہ یہ سب بالکل سچ ہے، اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ مگر اس کی باتوں نے میرے پورے جسم میں خوف کی لہر دوڑا دی تھی۔
ریبیکا ایوانز کا یہ بھی کہنا ہے:’’ہم ایسی کسی بچی کو نہیں جانتے جس کا نام ٹلی ہو اور نہ ہی میں ایلکس نام کے کسی بچے سے واقف ہوں اور نہ ہی میں نے اپنی بیٹی سے کبھی موت کے بارے میں کوئی بات کی ہے اور نہ ہی اسے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں بتایا ہے۔ پھر وہ نہ جانے کیوں مجھ سے ایسی باتیں کرتی ہے کہ میرے پورے جسم میں خوف کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔ نہ جانے ایسی باتیں کون اس کے دماغ میں ڈال رہا ہے۔ میں خود کو ایک حقیقت پسند، عملی اور باشعور خاتون سمجھتی ہوں، اسی لیے نہ خود خیالی باتیں کرتی ہوں اور نہ ہی اپنی بیٹی کو بتاتی ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ ریبیکا ایوانز گذشتہ17 برسوں سے ایک صحافی ہیں۔ وہ نہ تو توہم پرست ہیں اور نہ جن بھوتوں یا یوں کہنا چاہیے کہ بدروحوں پر یقین رکھتی ہیں۔
اسی طرح ریبیکا کے شوہر ایڈریان بھی ایک کھلے ذہن کے مالک آدمی ہیں اور خواب و خیال کی دنیا میں نہیں رہتے۔ وہ بھی نہ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی کبھی اپنی بیٹی سے اس قسم کی باتیں کرتے تھے کہ وہ کسی وہم میں پڑتی یا افسانوی باتیں کرتی۔
اس حوالے سے باتیں کرتے ہوئے ریبیکا ایوانز نے مزید کہا:’’ہم لوگ نارتھ ڈیوون میں جہاں رہتے ہیں وہاں زیادہ آبادی نہیں ہے، بلکہ ہم ایک جنگل کے بیچوں بیچ رہتے ہیں اور ہمارے گھر سے نصف میل تک ہمارے پڑوس میں کوئی بھی نہیں رہتا۔ لیکن ایک بات آپ کو سچ سچ بتادوں کہ اپنی بیٹی کی زبانی اس طرح کی باتیں سن کر بھی مجھے نہ تو ڈر لگتا ہے اور نہ ہی خوف آتا ہے۔ میں نے مافوق الفطرت چیزوں اور باتوں پر کبھی یقین نہیں کیا اور نہ کروں گی۔ لیکن ایک چیز مجھے پریشان کررہی ہے، وہ یہ کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ روزیلن نے مجھ سے یہ باتیں کی ہوں، بلکہ اس نے مجھ سے یہ باتیں اس وقت بھی کی تھیں جب اس کی عمر صرف ڈیڑھ سال تھی، مجھے آج بھی یاد ہے کہ ان دنوں وہ مجھے بار بار تہہ خانے کے دروازے کی طرف اشارہ کرکے کچھ دکھانے کی کوشش کرتی تھی۔
اس کی باتوں اور حرکتوں سے مجھے ایسا لگا تھا کہ روزیلن کو کوئی بھیڑ دکھائی دے رہی ہے۔ میں نے تو اس کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی مگر جب وہ مسلسل مجھ سے یہ کہتی رہی کہ ’’ممی! وہ دیکھیں سامنے بھیڑ ہے۔‘‘ تب میں نے سامنے دیکھا، لیکن مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا۔اس کے چند ہفتوں بعد جب ہم وہاں دوبارہ گئے تو میری بچی نے بڑے اداس لہجے میں مجھے بتایا کہ ’’ممی! وہ بھیڑ تو چلی گئی، اب یہاں نہیں ہے۔‘‘
بعد میں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں آج میرا گھر تعمیر کیا گیا ہے، یہاں کسی زمانے میں بھیڑوں کا ایک پرانا فارم ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ مگر میں نے اس بات کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ البتہ جب روزیلن نے مجھ سے ایسی باتیں کیں تو میں اس کی باتوں پر توجہ دینے پر مجبور ہوگئی۔ میرا خیال تھا کہ اس کی باتوں میں کوئی نہ کوئی راز تو ضرور ہے۔ ویسے بھی اب وہ تین سال کی ہوچکی ہے اور پہلے سے زیادہ سمجھ دار بھی ہوگئی ہے۔
وہ اب چیزوں کو سمجھنے لگی ہے، کوئی دودھ پیتی بچی نہیں رہی۔ وہ ابھی تک مجھ سے اپنے مردہ دوستوں ٹلی اور ایلکس کے بارے میں باتیں کرتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ مجھے ان تین برسوں کے دوران اب اپنے گھر میں تھوڑی سی بے چینی اور الجھن تو محسوس ہونے لگی ہے، اس کے باوجود میں ان توہمات پر یقین نہیں رکھتی اور یہاں سے کہیں نہیں جانا چاہتی۔ میں جن بھوتوں اور بد روحوں پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ان سے خوف کھاتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ زندگی کے مختلف انوکھے اور بڑے نرالے انداز ہوتے ہیں، اور ہر ایک کا انداز جدا ہوتا ہے، پھر بھی میں توہمات کو نہیں مانتی۔ پھر ایک روز میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس جگہ تھوڑی بہت کھدائی تو کرواؤں تاکہ کسی حقیقت تک پہنچ سکوں اور روزیلن کی باتوں کو غلط ثابت کرسکوں۔
مگر آج میں سوچتی ہوں کہ کاش! میں نے یہ سب نہ کیا ہوتا!جب میں نے 1861 کا مردم شماری کا ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ یہاں الیگزینڈر ٹرنر نام کا ایک دس سالہ لڑکا رہتا تھا، اس کے تیس سال بعد کا یعنی 1891 کا ریکارڈ یہ بتارہا تھا کہ اس مدت کے دوران یہاںMatilda Oke نامی بیس سالہ لڑکی رہتی تھی جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نوجوانی میں بھی یہیں رہتی تھی۔ کافی عرصے سے میں مسلسل اس جدوجہد میں تھی کہ کسی طرح یہ ثابت کردوں کہ ایلکس، ٹلی اور وہ بھیڑ میری بیٹی کے ذہن کی اختراع ہے، مگر پھر میں نے ایک تازہ ریسرچ دیکھی جس سے مجھے پتا چلا کہ برطانیہ میں ہر پانچ میں سے ایک فرد روحوں یا بدروحوں پر یقین رکھتا ہے اور یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ وہ انہیں دیکھ چکا ہے۔ پھر میں نے تھوڑی بہت بھاگ دوڑ کی اور ریسرچ بھی کی تو مجھے پتا چلا کہ اس ملک میں مجھ جیسے والدین کی کوئی کمی نہیں ہے جن کے بچے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مردہ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں جیسا کہ The Sixth Sense نامی فلم میں Haley Joel Osment نامی کردار کچھ مردہ لوگوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔
33 سالہ کیٹی جونز کینٹبری کینٹ کی ایک کیئرر ہیں۔ ان کی گیارہ سالہ بیٹی ایلس جب دو سال کی تھی، اس وقت سے ایسے لوگوں کو دیکھنے کے دعوے بھی کیا کرتی تھی جنہیں پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔
کیٹی کا کہنا ہے:’’جب ایلس دو سال کی تھی تو وہ چیخ چیخ کر کہتی تھی کہ میرے کمرے میں دو گندے آدمی ہیں جو مجھے مسلسل گھور رہے ہیں اور مجھ پر چیخ بھی رہے ہیں۔‘‘ پھر اس نے یہ بھی کہنا شروع کردیا:’’میرے بیڈ کے کنارے پر شیلا نام کی ایک لڑکی بیٹھی اپنی ممی کو یاد کرکرکے رو رہی ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک پرانے اخبار کے کچھ تراشے نکالے تو پتا چلا کہ یہاں اس نام کی ایک لڑکی کا قتل ہوا تھا۔ یہ جاننے کے بعد میں خوف زدہ ہوگئی۔ پھر ایلس نے مجھے بتایا کہ اس کی دادی کا نام بھی ایلس تھا جو میری بیٹی کی پیدائش سے ایک سال پہلے مرگئی تھیں اور اسی لیے وہ اس کے کمرے میں آتی تھی۔ اس نے بتایا کہ پھر اس کی نانی نے اس لڑکی اور ان دونوں افراد کو وہاں آنے سے منع کیا تو انہوں نے اس کی بات مان لی اور پھر نہیں آئے۔
کیٹی نے بتایا کہ ایلس اپنی نانی کے لباس کے بارے میں ٹھیک ٹھیک بتاسکتی ہے جو وہ پہنا کرتی تھیں۔ جب ایلس تین سال کی تھی تو اس گھر کی ایک خاتون کی گود میں نانی ایک بچہ دیکھنے آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس بچے کا نام میکس تھا۔ وہ انہیں کیسے معلوم ہوا؟ ہم نے مذکورہ خاتون کو نہ یہ بات بتائی اور نہ یہ بتایا کہ اس کا نام میکس ہوگا۔ وقت گزرتا گیا اور پھر وہ کہنے لگی کہ میکس اور نانی اب بھی وہاں ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ میکس کی چوتھی سال گرہ ہے اور جب میں نے چیک کیا تو وہ ٹھیک تھی۔ اس نے صحیح دن اور عمر بھی بتادی تھی۔
کیٹی کہتی ہے:’’جب وہ چار سال کی تھی تو مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھ سے کہا تھا اسے ہمارے پڑوسی کو ایک پیغام دینا ہے۔ اس کا شوہر کینسر کی وجہ سے مرگیا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ اسے رونے دھونے سے منع کرے، کیوں کہ اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔
جب شروع میں اس نے مجھے ایسی باتیں سنانی شرو ع کیں تو میں نے اسے ایک بچی کی باتیں سمجھ کر نظرانداز کردیا، مگر جب وہ مسلسل یہ سب کہتی رہی تو مجھے یقین آگیا کہ اسے خدا کی طرف سے یہ ’’تحفہ‘‘ ملا ہے اور وہ واقعی روحانی قوت کی حامل ہے۔ وہ اکثر محسوس کرتی تھی کہ اسے اس کی نانی پیار سے سہلارہی ہیں، لیکن اسے کچھ برے تجربات بھی ہوئے۔
ہمارے پرانے گھر میں وہ مسلسل کہتی تھی کہ اس نے ایک لڑکے کو دیکھا ہے اور پھر اس نے سیڑھیوں سے اوپر جانے سے انکار کردیا۔ وہ کھڑے ہوکر چیختی اور کہتی رہی کہ یہ لڑکا مجھے اپنے پاس سے نہیں گزرنے دے رہا اور مجھے ڈرا اور ستا رہا ہے۔ اب ایلس کی عمر گیارہ سال ہے، وہ کہتی ہے کہ اب مجھے بہت کم چیزیں دکھائی دیتی ہیں، لیکن مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے اپنی پردادی کو دیکھا تھا۔ میں خود کو اپنی نانی کے ساتھ زیادہ محفوظ محسوس کرتی تھی، کیوں کہ وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھیں، مجھے ان سے ذرا بھی ڈر نہیں لگتا تھا، اس کے علاوہ مجھے وہ بچہ ابھی تک اچھی طرح یاد ہے اور اس کی سال گرہ بھی! لیکن جب میں کسی اجنبی کو یعنی کسی نئے چہرے کو دیکھتی ہوں تو خوف زدہ ہوجاتی ہوں، لیکن ایسے لوگ ذرا کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ اس دوران بعض روحیں اور خاص طور سے چھوٹے بچوں کی روحیں ایسی بھی دکھائی دیتی ہیں جن سے ڈر نہیں لگتا، شاید وہ ہماری حفاظت کے لیے آتے ہیں۔
رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کے ڈاکٹر اسٹیفن ویسٹ گارتھ جو ایک چائلڈ سائیکاٹرسٹ اور کنسلٹنٹ ہیں اور Child Psychiatry UKکے ڈارئریکٹر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے:’’چھوٹے بچوں میں ایسا سلوک یا behaviour نارمل ہے۔ بچوں کی تصوراتی دنیا لامحدود ہوتی ہے اور اس دنیا کے وہ سماجی اور مادی قواعد و ضوابط بھی نہیں ہوتے جیسے بالغوں کی دنیا کے ہوتے ہیں۔ بہ حیثیت ایک والد کے میں کبھی اپنے کسی ایسے بچے کے لیے فکرمند نہیں ہوں گا جو ایسے تجربات سے گزر رہا ہو، میری نظر میں تو یہ مثبت چیزیں ہیں، کیوں کہ ان سے بہت واضح اور روشن تصورات کا پتا چلتا ہے۔ یہ بالکل نارمل بات ہے کہ جیسے جیسے بچہ نشوونما پاتا ہے تو اس کا دماغ بھی ڈولپ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اسٹیفن ویسٹ گارتھ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق ایسے گھرانوں سے رہا ہے جن کے بچوں کے ساتھ ایسے کیس پیش آئے تھے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے سے ہی بہت زیادہ روحانی عقائد کے مالک تھے اور موت کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے تھے۔