وہ مسلمان ملک جہاں خواتین کو شادی کے لئے مردوں کی اشد ضرورت ہے
عراق کا شمار کبھی خطے کے خوشحال ممالک میں ہوتا تھا مگر پہلے امریکا نے اور اس کے بعد داعش نے اسے ایسا بربادکیا ہے کہ عام عراقیوں کے لئے زندگی ایک مسلسل عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ جہاں اور بہت سے مسائل نے اس ملک کو گھیر رکھا ہے وہیں ایک مسئلہ لاکھوں کی تعداد میں بن بیاہی بیٹھی لڑکیاں ہیں جن کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں۔ مردوں کی بڑی تعداد خانہ جنگی کی نظر ہو گئی اور جو بچ گئے ہیں ان کے پاس زندہ رہنے کے اسباب نہیں، وہ گھر کیسے بسائیں گے؟
موصل شہر سے تعلق رکھنے والی خلود بھی ایک نوجوان عراقی لڑکی ہے جو یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر چکی ہے اور جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھنا چاہتی ہے مگر بے شمار دیگر عراقی لڑکیوں کی طرح اس کا بھی یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ گلف نیوز سے بات کرتے ہوئے خلود کا کہنا تھا کہ ”میرے پاس کوئی ملازمت نہیں ہے اور میری شادی بھی نہیں ہورہی ہے۔ میرے
شب و روز گھر کے کاموں میں گزرتے ہیں۔ میں یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرچکی ہوں اور میری عمر 24 سال ہے لیکن میں خود کو اپنے والدین کے گھر میں قید محسوس کرتی ہوں۔ شاید میرے پاس ابھی بھی خاوند تلاش کرنے کی کچھ امید باقی ہے لیکن میری بڑی بہن 29 سال کی ہوچکی ہے اور اس کے لئے امید تقریباً ختم ہوچکی ہے۔“
موصل شہر کبھی عراق میں تہذیب و ثقافت کا مرکز قرار دیا جاتا تھا۔ عراق کے دوسرے بڑے اس شہر پر 2014ءمیں داعش نے قبضہ کرکے اسے عراق میں اپنا دارالخلافہ قرار دیا تھا۔ کبھی یہاں لڑکیوں کی کمر عمری میں شادی کا رواج عام تھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ 30سال یا اس سے زائد عمر کی لڑکیاں بھی بن بیاہی بیٹھی ہیں۔ شہر کا اکثر حصہ گزشتہ سالوں کی جنگ کے دوران تباہ
و برباد ہوچکا ہے۔ نوجوانوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں اور رہنے کو مکان نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں کسی بھی نوجوان لڑکی کے لئے موزوں رشتہ ملنا ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے۔ بے روزگار لڑکے کوشش کرتے ہیں کہ انہیں پڑھی لکھی اور برسرروزگار بیوی مل جائے لیکن جہاں مردوں کے لئے نوکریاں نہیں ہیں وہاں خواتین کو روزگار کہاں سے ملے گا۔ نتیجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں لڑکیاں شادی کا خواب دل میں لئے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبورہو چکی ہیں۔