(ن) لیگی رہنماؤں اور زر والوں کو ریلیف دینے کا تحریک انصاف کو کیا ناقابل تلافی نقصان ہونے والا ہے ؟ سہیل وڑائچ نے پیشگوئی کر دی
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عجب اتفاق ہے انتخابا ت سے پہلے ن لیگ مشکل میں تھی، رہنماؤں پر کیسز بن رہے تھے، گرفتاریاں ہورہی تھیں اور سزائیں مل رہی تھیں، انتخابات سے چار دن پہلے تک گرفتاری ہوئی
مگر اب ان کیسوں میں ن لیگ کو ریلیف مل رہا ہے،سزائیں معطل ہورہی ہیں اور ضمانت پر رہائی مل رہی ہے، ن لیگ کے رہنما حنیف عباسی کا کیس 2012ء سے عدالتوں میں ہے، انتخابات سے چار دن پہلے عدالت نے حنیف عباسی کو عمرقید کی سزا سنادی اور وہ انتخابات نہیں لڑسکے، حنیف عباسی نے فیصلے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی اور عدالت سے سزا معطل کرنے کی درخواست کی جسے جمعرات کو منظور کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ خیال کیا جارہا ہے کہ چونکہ فی الحال نہ کوئی الیکشن ہے نہ کوئی بڑا چیلنج درپیش ہے تو اس لئے ان پر سختی میں کمی آئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اقتدار کے راستے ہموار ہورہے ہیں یا پی ٹی آئی کیلئے زمین دشوار ہورہی ہے،سینئر صحافی مہتاب حیدر نے کہا کہ معیشت سلوڈاؤن ہورہی ہے جو خطرناک بات ہے، سلوڈاؤن معیشت میں ایف بی آر کیلئے بڑے ٹارگٹس کا حصول مشکل ہوگا،سینئر صحافی شہبازرانا نے کہا کہ وزیرمملکت ریونیو حماد اظہر کا ایف بی آر کے انتظامی معاملات میں کوئی کردار نہیں وہ پالیسی کی حد تک محدود ہیں،سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کی مشکلات آسان ہوتی نظر آرہی ہیں، پی ٹی آئی حکومت کی مرضی کیخلاف ن لیگ کی قیادت اور کارکن مشکلات سے نکل رہے ہیں، حکومت چاہتی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگ جیلوں میں رہیں،
خاص طور پر جن لوگوں کے مقدمات پر فیصلے آچکے ہیں انہیں لازمی جیلوں میں رکھنا چاہتی ہے، عدالتی فیصلوں سے ن لیگ کو ریلیف مل رہا ہے اور پی ٹی آئی کو تکلیف ہورہی ہے، ن لیگ کے دکھ تو کم ہورہے ہیں لیکن کلین چٹ ابھی بھی نہیں ملی ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ چونکہ فی الحال نہ کوئی الیکشن ہے نہ کوئی بڑا چیلنج درپیش ہے تو اس لئے ان پر سختی میں کمی آئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اقتدار کے راستے ہموار ہورہے ہیں یا پی ٹی آئی کیلئے زمین دشوار ہورہی ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ حنیف عباسی کو جس وقت سزا ہوئی اس میں الیکشن کی وجہ بھی شامل تھی، طویل انتظار کے بعد رات گئے فیصلہ آنے سے اس کے سیاسی رخوں کا اندازہ ہوتا تھا، پی ٹی آئی سمجھتی ہوگی کہ وہ طاقتیں جو ن لیگ کیخلاف تھیں اب اتنی سخت مخالف نہیں رہی ہیں، میرے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ کمزور کیسوں کی خامیاں عدالتوں کے سامنے کھل کر آجاتی ہیں جس کے بعد جج صاحبان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے، الیکشن کے قریب
دباؤ میں بہت سے ایسے فیصلے آجاتے ہیں جس میں غور و فکر نہیں کیا گیا ہوتا ہے،ن لیگ کی مصیبتیں ختم نہیں ہوئیں تو کم ضرور ہوئی ہیں۔سینئر صحافی شہباز رانا نے کہا کہ وزیرمملکت ریونیو حماد اظہر کا ایف بی آر کے انتظامی معاملات میں کوئی کردار نہیں وہ پالیسی کی حد تک محدود ہیں، تمام انتظامی معاملات چیئرمین ایف بی آر دیکھ رہے ہیں، آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ پاکستان چار سے پانچ فیصد یعنی تقریباً 2ہزار ارب روپے کم ٹیکس وصولی کررہا ہے، آئی ایم ایف جی ڈی پی کے 13فیصد تک جانے کا کہہ رہا ہے جو ممکن نہیں ہے، روپے کی قدر میں کمی تو دو لوگ کرلیتے ہیں لیکن ایف بی آر ٹیکس لگاتی ہے تو معاملہ وفاقی کابینہ میں جائے گا، حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کو 5ہزار ارب روپے ٹیکس وصولی پر قائل کرلے۔شہباز رانا کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف پروگرام آجاتا ہے تو ہر سہ ماہی کے بعد ایک نیا منی بجٹ آئے گا، اسحاق ڈار نے بھی اپنے دور میں بہت زیادہ منی بجٹ دیئے تھے، نان فائلرز کیخلاف مہم میں ایک ارب 30کروڑ روپے کا ریونیو ملا جبکہ انفورسمنٹ کے ایکشنز سے 8ارب 30کروڑ روپے کا ریونیو ملا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اصل مسئلہ پالیسی کا نہیں انفورسمنٹ کا ہے، آئی ایم ایف کا مسئلہ ہے کہ وہ پالیسی کی طرف زیادہ توجہ رکھتا ہے۔ (ش س م)