نبی کریم ؐ نے شب برأت کیسے گزاری، پڑھیے ایک ایمان افروز تحریر
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘ رسولِ کریمؐ میرے حجرئہ مبارک میں کملی اوڑھے آرام فرما رہے تھے‘ شعبان المعظم کی پندرہویں شب تھی۔پچھلی رات رسولِ کریمؐکو بستر پر نہ پا کر میں پریشان ہوئی، میں اُٹھی اپنے حجرہ مبارک میں آپؐ کو تلاش کرنے لگی۔ میرا ہاتھ
آپؐکے پائوں مبارک کو لگ گیا۔ آپؐ عبادت میںمشغول تھے اور دُعا فرما رہے تھے۔ میں نے یہ دُعا حفظ کرلی۔ آپؐنے بارگاہِ صمدیت میں عرض کیا۔ ’’سجدہ کیا تیرے حضور میری آنکھوں کی سیاہی اور میرے خیال نے اور میرا دِل تیرے ساتھ اِیمان لایا۔ تیری نعمتوں کو قبول کیا ، اپنی تاریکی گناہ پر تیرے حضور اِقرار کرتا ہوں‘‘ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، مجھے بخشش (کے تحفے) عطا فرما۔
سوائے تیرے ، گناہوں کا کوئی بخشنے والا نہیں‘ میں تیرے عذاب سے تیری معافی کی پناہ ڈھونڈتا ہوں اور تیرے غضب سے تیری رضا مندی کی پناہ تلاش کرتا ہوں۔ میں تیری حمدو ثناء کو شمار نہیں کر سکتا۔ جیسے تو نے خود اپنی ثناء کی ہے ‘‘۔ (مجمع الزوائد جلد ۲ ص ۸۲۱، درمنثور جلد ۷ ص ۴۰۴، کنز العمال حدیث نمبر۲۱۸۹۱۔)
’’ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓفرماتی ہیں‘ رسولِ کریمؐ میرے ہاں تشریف فرما تھے ،رات کو آپؐ میرے حجرہ سے نکلے، میں بھی آپ ؐکے پیچھے نکلی مگر میں نے آپ ؐکو (جنت) البقیع میں پایا۔ وہاں آپؐ ؐمومن مردوں اور مومنہ عورتوں اور شہداء کی بخشش کے لئے اِستغفار فرما رہے تھے۔ تو میں نے عرض کیایا رسول اللہ ؐ! آپ ؐتو اللہ کے کام
میں لگے ہیں اور میں دنیوی حاجت میں ہوں۔ پھر رسولِ کریم ؐ تشریف لائے اورر فرمایا: اے عائشہ میرے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور عرض کیا یہ شعبان پندرھویں رات ہے۔ (ابن ماجہ ص ۰۰۱) اِس رات اللہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر جہنم سے لوگوں کو آزادی عطا فرماتا ہے۔ مگر اِس رات اللہ مشرک، کینہ پرور، قاطع رحم، پاجامہ ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے‘ ماں باپ کو ستانے والے اور ہمیشہ شراب پینے والے کی طرف نگاہِ کرم نہیں فرماتا۔ (الترغیب والترہیب جلد ۳ ص ۰۶۴‘ ) ۔حضرت عثمان بن مغیرہ بن اخنس ؓ فرماتے ہیں‘ رسول اللہؐنے فرمایا ہے:’’شعبان (المعظم) میں اگلے شعبان (المعظم) تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ جس کا نکاح ہونا ہے اور جس نے مرناہو اُس کا نام(زندوں سے) مرنے والوں میں علیٰحدہ کیا
جاتا ہے‘‘۔ در منثور میں یہی روایت اِنہی الفاظ کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔حضرت معاذ بن جبلؓ‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’اللہ شعبان کی پندرہویں شب مخلوق کی طرف نزول اَجلال فرماتا ہے مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ سب کی بخشش فرما دیتا ہے‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ’’یعنی اللہ ہر مومن کی بخشش
فرما دیتا ہے، سوائے والدین کے نافرمان‘ بے ادب اور ذاتی دشمنی رکھنے والے کے‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے۔ اللہ آسمان دُنیا پر نزولِ اَجلال فرماتا ہے۔ پھر اپنے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔ سوائے مشرک اور اپنے بھائی سے بغض رکھنے والے کے‘‘۔ حضرت کثیر بن مرۃؓ‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐنے فرمایا:۔ ’’شعبان کی پندرہویں رات اللہ سوائے مشرک اور کینہ پرور کے تمام اہلِ زمین کی بخشش فرما دیتا ہے‘‘۔ حضرت امام حافظ نور الدین علی ابن ابی بکر ہیثمی نے’’ مجمع الزوائد‘‘ میں ایک باب
باندھا ہے۔ جس کا عنوان (باب ما جاء فی السحنا) یعنی وہ باب جس میں دشمنی ، بغض اور کینہ کے بارے بیان ہے۔ اِس باب میں اُنہوں نے محولہ بالا روایات کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ، حضرت عوف بن مالکؓ سے بھی روایات نقل کی ہیں جن میں مشرک کینہ پرور اور بغض رکھنے والے کا ذکر کیا ہے۔
’حضرت عطا بن یسارص فرماتے ہیں‘ جب شعبان (المعظم) کی پندرہویں رات ہوتی ہے ، ملک الموت کو ایک صحیفہ دیا جاتاہے جس میں یہ بتایا گیا ہوتا ہے کہ کس نے فوت ہونا ہے، کون بندہ
صاحب فراش ہو گا، کون نکاح کرے گا اور کون مکان بنا رہا ہو گا؟ اور اُس کا نام زندوں کی فہرست سے نکال کر مرنے والوں کی فہرست میں لکھ دیا جاتا ہے۔ حضرت عطا بن یسار ص سے ہی روایت ہے‘ فرماتے ہیں:-’’ماہِ شعبان(المعظم) کے وسط کی رات میں ایک سال کے اَعمال بندوں کے پروردگارِ جل جلالہ کی درگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور جو لوگ سفر کی حالت میں مریں گے یا بعد نکاح کرنے کے فوت ہوں گے اُن کے نام لکھے جاتے ہیں‘‘۔ قیام شبِ برأت اور روزہ:حضرت علیؓفرماتے ہیں‘ رسول اللہؐے فرمایا:’’جب شعبان (المعظم) کے مہینے کی پندرہویں شب ہو تو اُس رات کو قیام کرو ، عبادت کرو اور اُس کے دن میں روزہ رکھو اِس لئے کہ اِس رات اللہ جل شانہ غروبِ آفتاب سے آسمان دُنیا پر نزولِ اَجلال فرماتا ہے اور فرماتا ہے‘ کوئی ہے جو بخشش چاہتا ہو
تو میں اُسے بخش دوں، کوئی ہے جو رزق چاہنے والا ہو تو میں اُسے روزی عطا فرمائوں اور کوئی مرض میں مبتلا ہے کہ شفاء چاہے تو میں اُس کو تندرست فرمائوں ،کوئی اَیسا ہے، کوئی اَیسا ہے یہی فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے‘‘۔
حضرت سیّدنا علیؓ سے فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ ؐ کو دیکھا آپ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کھڑے ہوئے اور آپؐنے چودہ رکعتیں نماز پڑھی۔ آپؐ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے پھر آپؐ نے ۴۱ بار سورۃ الفلق ، ۴۱ مرتبہ سورۃ الناس اور ایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھی اور ایک مرتبہ التوبہ کی آیت: ۸۲۱) کی تلاوت فرمائی۔ جب آپ ؐ فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ؐ اُس شخص کے لئے کیا حکم ہے جو اِس طرح نماز ادا کرے؟ تو رسولِ کریمؐنے فرمایا‘ جو اِس طرح نماز پڑھے جیسے تو نے مجھے دیکھا ہے تو اِس کے لئے بیس حج مبرور اور بیس سال کے روزوں کا ثواب
ہے اور اگر اِس رات کے بعد دن میں روزہ رکھے تو دو سال کے روزوں کا اُس کے لئے ثواب ہے۔ ایک سال ماضی کا اور ایک سال مستقبل کا۔ صلاۃ الخیر،شعبان المعظم کی پندرہویں رات ایک نماز پڑھی جاتی ہے۔ اِس کو صلاۃ الخیر ’’ یا نماز خیر‘‘ کہتے ہیں۔ اِس کی سو رکعتیں ہیں جن میں ہزار مرتبہ سورۃ الاخلاص شریف پڑھی جاتی ہے۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ شریف کے بعد 10 مرتبہ سورۃ الاخلاص شریف ، یہ نماز دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے۔ چار چار رکعت کر کے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر چار رکعت کی صورت میں یہ بات یاد رکھیں کہ جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں تو التحیات پڑھنے کے بعد دُرود شریف اور دُعا بھی پڑھیں اور جب تیسری رکعت شروع کریں تو پہلی رکعت کی طرح اِس میں بھی ثناء پڑھیں لیکن اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ نہ پڑھیں۔
حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں:- حَدَّثَنِیْ ثَلَاثُوْنَ فِیْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺاَنَّ مَنْ صَلّٰی ھٰذِہٖ الصَّلٰوۃَ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ نَظَرَ اللّٰہُ اِلَیْہِ سَبْعِیْنَ نَظْرَۃً وَّقَضٰی لَہٗ بِکُلِّ نَظْرَۃٍ سَبْعِیْنَ حَاجَۃً اَدْنَا ھَا الْمَغْفِرَۃُ ۳۲؎ ’’مجھے تیس صحابہ کرام نے اِس نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اِس رات اِس نماز کو اَدا کرے گا، اللہ اُس کی طرف ۰۷ بار نگاہِ کرم فرمائے گا اور ہر نگاہِ کرم کی برکت سے نماز پڑھنے والے کی ستر حاجتیں پوری فرمائے گا۔ اُن حاجتوں میں سے ایک حاجت اُس کی بخشش ہے‘‘۔(ذ،ک)