نجم سیٹھی پر 35 پنکچر زکا مسلسل الزام اور پھر مکمل خاموشی ۔۔۔حقیقت کیا تھی ؟ انکشاف ہو گیا
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جنگ جیو گروپ کا جو اعلانیہ بائیکاٹ کر رکھا تھا وہ کسی اعلان کے بغیر ختم کر دیا ہے، جمعرات کو انہوں نے جیو کے پروگرام میں تفصیلی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے زیادہ تر پرانی باتیں دہرائیں، بعض باتیں تو وہ ہیں جو ایک ہزار
ایک کلم نویس برسبیل تذکرہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں ایک مرتبہ آصف علی زرداری بھی کر چکے ہیں اور اب بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس وقت انٹرویو کے مندرجات پر بات نہیں کرنی کیونکہ ناظرین اسے دیکھ چکے اور قارئین اسے پڑھ چکے جو تمام اخبارات میں ملتی جلتی سرخیوں کے ساتھ شائع ہو چکا ہے۔ عمران خان نے طویل عرصے سے جنگ اور جیو کا بائیکاٹ اس لئے کر رکھا تھا کہ اُن کے خیال میں جنگ گروپ کا ایڈیٹر انچیف اور مالک میر شکیل الرحمن بلیک میلر، فرعون اور میڈیا کا گاڈ فادر ہے، عمران خان یہ الزام بھی اپنی تقریروں، انٹرویوز اور بیانات میں بار بار
دہراتے رہے کہ میر شکیل الرحمن غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ عمران خان نے یہ الزام بھی بار بار لگایا کہ میر شکیل الرحمن نوازشریف سے رقم اور اشتہارات لیتے ہیں۔ عمران خان میر شکیل الرحمن، جنگ اور جیو میں کام کرنے والے بعض صحافیوں کا نام لے کر اُن پر مختلف نوعیت کے الزامات لگاتے رہے، ایسے ہی الزامات کی بنیاد پر جنگ گروپ نے عمران خان کے خلاف اسلام آباد کی ایک عدالت میں ایک ارب روپے ہرجانے اور معافی مانگنے کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اس مقدمے کی کئی پیشیاں ہو چکی ہیں لیکن وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔ عمران خان نے میر شکیل الرحمن پر الزامات کا آغاز دھرنے کے
دنوں میں کیا تھا۔ بعد ازاں وہ وقتاً فوقتاً ان کا اعادہ کرتے رہے، ایسے ہی الزامات ایک ٹی وی چینل نے بھی میر شکیل الرحمن پر لگائے جس پر اُنہوں نے برطانیہ میں اس چینل پر مقدمہ کر دیا، اور وہ چینل عدالت میں اپنے الزام ثابت نہ کر سکا۔ اس چینل نے عدالت میں تسلیم کیا کہ اس کے پاس ان الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ہے، جس پر عدالت نے اس چینل کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ اسی طرح کا مقدمہ جنگ گروپ نے پاکستان میں بھی اس چینل کے خلاف دائر کر رکھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب عمران خان نے میڈیا کے اس ’’گاڈ فادر‘‘ کے خلاف الزامات واپس لے لئے ہیں یا
وہ اپنے ان الزامات پر قائم ہیں اور انہیں عدالت میں ثابت کریں گے اگرچہ عمران خان نے جنگ گروپ اور جیو کا بائیکاٹ کر رکھا تھا لیکن ان کا یہ فیصلہ یکطرفہ تھا، جنگ گروپ نے تحریک انصاف اور عمران خان سمیت اس کے دوسرے لیڈروں کی خبروں کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ جیو پر تحریک انصاف کی خبریں باقاعدگی سے جگہ پاتی رہیں، جنگ گروپ کے اخبارات میں بھی ان کی خبروں کو نمایاں جگہ ملتی رہی۔ عمران خان جن
خبروں سے ناراض ہوتے رہے، اُن میں اُن کی شادی کی خبریں بھی شامل تھیں جو جنگ میں نمایاں طور پر شائع ہوئیں، ان کی تازہ ترین شادی کی خبر بھی جنگ کے ایک رپورٹر عمر چیمہ نے بریک کی تھی جس کی تردید کر دی گئی، البتہ تھوڑے ہی عرصے بعد اس شادی کی تصویر بھی جاری ہو گئی۔ تقریب نکاح میں شامل ہونے والے جن لوگوں کے نام اخبار نے شائع کئے تھے وہی تصویر میں بھی نظر آتے رہے۔ اس خبر کی بنیاد پر بھی تحریک انصاف نے جنگ کو ہدف تنقید بنایا اور پرانی خبروں کے حوالے دے کر بتایا کہ جنگ اور جیو ہمیشہ سے عمران خان کے خلاف ’’جعلی خبریں‘‘ چھاپتا رہا ہے، حالانکہ دیکھا جائے تو یہ خبر نہ تو جعلی تھی اور نہ غلط، البتہ اتنا ضرور تھا کہ خبر کو راز میں رکھنے کا جو اہتمام کیا گیا تھا وہ قائم نہ رہ سکا، ایسا ہی ریحام خان کے ساتھ شادی اور طلاق کے معاملے پر بھی ہوا تھا، جب ریحام خان کے ساتھ شادی اور بعد ازاں طلاق کی خبریں سامنے آئیں تو ان کی بھی باقاعدہ تردید کی گئی لیکن یہ خبریں بھی بالآخر درست ثابت ہوئیں۔ غالباً عمران خان ایسی ہی خبروں پر ناراض تھے
حالانکہ ان کے ایک زمانے میں میر شکیل الرحمن کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات تھے لیکن ان تمام تر تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میر شکیل الرحمن پر ایسے الزامات لگائے گئے جو برطانیہ کی ایک عدالت پہلے ہی مسترد کر چکی تھی۔ میر شکیل الرحمن پر جو الزامات لگائے گئے تھے، اب جیو کو ایک گھنٹے کا انٹرویو دے کر کیا یہ الزامات واپس لے لئے گئے ہیں یا پھر عمران خان اور میر شکیل الرحمن دونوں نے محسوس کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ اس لئے باہمی رواداری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے تو کیا اب میر شکیل الرحمن ایک ارب روپے ہرجانے کا وہ
مقدمہ واپس لے لیں گے جو انہوں نے اسلام آباد کی عدالت میں دائر کر رکھا ہے، ہرجانے کا ایسا ہی ایک مقدمہ شاید نجم سیٹھی نے بھی دائر کیا تھا، جن پر عمران خان مسلسل یہ الزام لگاتے رہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے 35 حلقوں میں دھاندلی کرائی، ’’35 پنکچر‘‘ کا الزام تسلسل کے ساتھ لگایا جاتا رہا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جس فورم پر اس الزام کا ثبوت دینے کی ضرورت تھی وہاں سرے سے اس کا تذکرہ ہی نہ کیا گیا، یہ فورم تھا سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن جو عمران خان کے مطالبے پر تشکیل پایا تھا اور
جس نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کی شکایات کی تحقیقات کیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔ عمران خان سے جب یہ پوچھا گیا کہ نجم سیٹھی پر دھاندلی کا الزام وہ جوڈیشل کمیشن کے روبرو لے کر کیوں نہیں گئے تو انہوں نے کہا یہ تو سیاسی بیان تھا، نجم سیٹھی آج تک کہتے ہیں کہ عمران نے اس پر کبھی معذرت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ ایک مقدمہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی عمران خان کے خلاف دائر کیا تھا غالباً اس مقدمے کی سماعت بھی سست رفتاری سے ہوتی رہی۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس پر 2013ء
کے الیکشن میں نوازشریف کے حق میں دھاندلی کرانے کا الزام لگایا تھا، اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے کردار کو غیر اخلاقی قرار دیا تھا، جب فاضل عدالت نے ان الفاظ کا نوٹس لیا تو عمران خان بڑے عرصے تک یہ کہتے رہے کہ غیر اخلاقی کوئی غلط لفظ نہیں ہے، بالآخر یہ معاملہ بھی معافی پر ختم ہوا، اب اس سے ملتا جلتا الزام انہوں نے فوج پر لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ 2013ء کا الیکشن نوازشریف کو فوج نے جتوایا، فوج کے ترجمان کی جانب سے ابھی تک اس کی کوئی وضاحت نہیں آئی۔ میر شکیل الرحمن کو جن القابات سے نوازا گیا، ایسے القابات وہ سیاسی رہنماؤں کے بارے میں بھی استعمال کرتے رہتے ہیں۔(ش،ز،خ)