نتائج میں تاخیر کی وجہ ’آر ایم ایس‘ اور ’آر ٹی ایس‘ سسٹم کو قرار دیا گیا مگر یہ کیا ٹیکنالوجی ہے اور کیسے کام کرتی ہے اور یہ سسٹم واقعی خراب ہوتا ہے یا نہیں؟ وہ تمام دلچسپ معلومات جو ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انتخابی نتائج کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور شاید پہلی بار ہی نتخابی نتائج میں اس حد تک تاخیر ہوئی ہے۔الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس بار انتخابات کی شب دو بجے تک تمام نتائج جاری کر دئیے جائیں گے تاہم یہ محض دعویٰ ہی رہا۔
پاکستان میں حالیہ عام انتخابات پہلی بار نئے قانونی ضابطہ کار الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت منعقد ہوئے ہیں جس میں ایک اہم نکتہ انتخابی نتائج کیلئے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کے قیام کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کرنا بھی تھا۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابی نتائج کی بروقت دستیابی اور اشاعت کیلئے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم متعارف کروایا گیا تھا تاہم الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کی شب اس سسٹم میں خلل کے باعث انتخابات کی نتائج آنے میں تاخیر ہوئی۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بدھ کی شب رات دو بجے تک کسی بھی صوبائی یا قومی اسمبلی کے حلقے کا ایک نتیجہ بھی سرکاری طور پر سامنے نہیں آیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت متعدد جماعتوں کی جانب سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سسٹم پر زیادہ زباو¿ کے باوعث کارکردگی متاثر ہونے کا عذر پیش کیا گیا۔
الیکشن ایکٹ 2017 کی رو سے انتخابات کے نتائج کے بروقت حصول کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کے اشتراک سے ”رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم“ (آر ایم ایس) متعارف کرایا گیا جو ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جس کی انسٹالیشن ریٹرننگ آفسر کے دفتر میں رکھے کمپیوٹر میں کی جاتی۔
یہ الیکٹرانک فارمز پر کام کرنے والا سسٹم ہے جس میں ریٹرننگ افسر کو رپورٹ کرنے والے ڈیٹا انٹری آپریٹرز تمام معلومات درج کر سکتے ہیں مثلاً امیدواروں کے نام، رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد، پولنگ سٹیشن کا نام اور نمبر، ہر امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد وغیرہ۔اس کے بعد ٹھوس نتائج کے فارم آر ایم ایس میں سکین کئے جاتے ہیں اور الیکش کمیشن بھیج دئیے جاتے ہیں جو وہ اپنی ویب سائٹ پر شائع کرتے ہیں۔
انتخابات میں پولنگ سٹیشنز سے نتائج حاصل کرنے کیلئے ”رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم“ (آر ٹی ایس) کا استعمال کیا گیا جس کے ذریعے ملک بھر میں قائم 85 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز سے انتخابی نتائج الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر تک پہنچانے کا کام لیا گیا۔ پولنگ سٹیشنز پر تعینات پریزائڈنگ افسران ایک موبائل ایپلی کیشن میں انتخابی نتائج اور فارم 45 کی تصویر درج کرتے ہیں اور پھر یہ ڈیٹا الیکشن کمیشن کے سرور پر منتقل ہوجاتا ہے۔بظاہر یہ ایک آسان اور تیز رفتار سہولت تھی لیکن انتخابات کی شام جب ملک بھر میں عوام انتخابی نتائج کے انتظار میں تھے اس سسٹم نے کام کرنا چھوڑ دیا جس کے باعث یہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔
آر ٹی ایس بظاہر ایک بہترین نظام تھا لیکن انتخابات سے قبل بھی اس کے صحیح طور پر کام کرنے کے حوالے سے کچھ خدشات سامنے آئے تھے۔ انتخابات سے قبل مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق فیصل آباد، اوکاڑہ اور چند دیگر شہروں میں ریٹرننگ افسران نے الیکشن کمیشن کو (آر ٹی ایس) کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان آر ٹی ایس سسٹم کے سرور پر اضافی دباو¿ کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔
ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق ایسا ممکن ہے کہ جب کسی ایپلی کیشن پر بہت زیادہ دباو¿ ہوتا ہے تو اس کے کام کرنے میں صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور جب بھی اس سسٹم کے مقررہ حد سے زیادہ دباو¿ آئے گا یہ کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے کہا تھا کہ نتائج کی فراہمی کے نظام یعنی آر ٹی ایس پر دباو¿ کے باعث نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی نتیجے میں دو گھنٹے کی تاخیر سے کوئی داغ نہیں لگا بلکہ انتخابات 100 فیصد شفاف ہیں۔انتخابات کی شفافیت اور انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی غیرسرکاری تنظیم فافن نے انتخابات کے بعد اپنی جاری کردہ رپورٹ میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ آر ایم ایس سسٹم میں مسائل کے باوجود حالیہ انتخابات میں انتخابی عمل کے معیار میں بہتری دیکھی ہے جس سے عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
فافن نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ سسٹم کی ناکامی سے الیکشن کمیشن کیلئے ناخوشگوار صورتحال پیدا کر دی جس سے لمحے بھر کیلئے الیکشن کمیشن کی بہتری کی کوششوں کو ماند کر دیا۔