٢ سال پہلےچیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارتی کا چالان کرنے والا موٹروے پولیس کا اہلکار اب کہاں اور کس حال میں ہے؟؟ ایسی سزا کہ جان کر ہر پاکستانی کا دل رو پڑے
ایک برس ہونے کو آگیا، ضیاءاللہ بیروزگار ہے۔ نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس نے اسے ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ 2016 میں چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا اس غریب نے چالان کردیا تھا۔ اب مصیبتیں ہیں کہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
روزنامہ جنگ کے مطابق ضیاءاللہ کا نظم و ضبط کی کارروائی کے تحت پہلے تبادلہ صوابی سے گوادر کیا گیا۔ تب مضحکہ خیز الزامات لگا کر پیٹرولنگ افسر کے منصب سے تنزلی کر کے ہیڈ
کانسٹیبل بنا دیا گیا۔ پہلے شوکاز نوٹسز دیئے اور پھر برطرف کر دیا گیا۔ جہاں وہ انصاف کیلئے لڑ رہا ہے وہیں اس کا محکمہ فیڈرل سروسز ٹریبونل کو برطرفی کی وضاحت فراہم کرنے میں گزشتہ دس ماہ سے لیت و لعل کے ساتھ کام لے رہا ہے۔
دریں اثناءوفاقی حکومت نے اس وقت این ایچ اے کے چیئرمین جن پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ ان کو انعام میں پوسٹنگ دی۔ وہ واشنگٹن میں ورلڈ بینک میں اعلیٰ عہدے پر ہیں اور اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس موٹر وے اب ایک سینئر پوزیشن پر ہیں۔ یہ ادارہ پولیس میں اصلاحات کا ذمہ دار ہے۔ مقامی اخبار نے 2016 ہی میں مذکورہ واقعہ کی خبر دے دی تھی جب ایک ہی دن 25 منٹ کے فرق سے چیئرمین این ایچ اے پر رفتار کی حد توڑنے پر دو بار جرمانہ عائد کیا گیا۔
گفتگو کے زبانی تبادلے کے بعد وہ جرمانہ ادا اور آئی جی موٹر وے سے شکایت کر کے روانہ ہوگئے۔ تاہم ضیاءاللہ سمیت پیٹرولنگ افسر کا خیبر پختون خوا میں صوابی سے بلوچستان میں گوادر
تبادلہ کر دیا گیا۔ ضیاءاللہ وہ اہلکار ہے جسے وزیراعظم نے توصیفی ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 2016 میں غیر معمولی کارروائی پر ضیا ءاللہ کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے نقد انعام سمیت محکمہ جاتی ایوارڈ کی بھی سفارش کی گئی۔ جسے ضیا ءاللہ نے مذکورہ ناخوشگوار واقعہ کے بعد لینے سے انکار کر دیا۔
اس کا نام اعزاز یافتگان کی فہرست سے بھی خارج کیا گیا۔ جس پر اس نے فیصلے کیخلاف اپنے ڈپار ٹمنٹ میں اپیل بھی دائر کی۔ ضیا ءاللہ کو گزشتہ سال 20 اپریل کو ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ جس پر اس نے فیڈرل سروسز ٹریبونل سے رجوع کیا۔ جس نے موٹر وے پولیس کو جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔ جس کی ہنوز تعمیل نہیں کی گئی۔