”میرے پاس عمران خان کےساتھ اس آدمی کی تصاویر موجود ہیں“نوازشریف نے نیا ہنگامہ برپا کردیا
احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے بیان قلمبند کراتے ہوئے سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق فیصلے اور جے آئی ٹی کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دے دیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی کے ارکان پر اعتراض تھا، جے آئی ٹی رکن بلال رسول سابق گورنر پنجاب کے بھانجے ہیں، میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر کی عمران خان کیساتھ 2017 کو تصاویر لی گئیں، بلال رسول پی ایم ایل این حکومت کیخلاف تنقیدی بیانات دے چکے ہیں،انہوں نے کہا کہ بلال رسول کی اہلیہ بھی تحریک انصاف کی سرگرم کارکن ہیں،اس کے علاوہ جے آئی ٹی رکن عامرعزیزبھی جانبدارہیں، سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی ہے،انہوں نے کہا کہ عامرعزیزمشرف دورمیں بھی میری فیملی کیخلاف ریفرنسزکی تحقیقات میں شامل رہے۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کےخلاف ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں جبکہ نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
احتساب عدالت نے تینوں ملزمان سے 127 سوالات پر مشتمل سوالنامے کا جواب طلب کیا تھا، آج سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم نواز شریف نے پہلے سوال میں اپنے عوامی عہدوں کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔نواز شریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ ‘میری عمر 68 سال ہے، میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔
نوازشریف نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن مجھے جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراض تھا اور یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا جبکہ آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے’۔نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبران کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ظاہر ہے جس کے ممبران میں بلال رسول سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے بھانجے ہیں جو (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف تنقیدی بیانات دے چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ بلال رسول کی اہلیہ تحریک انصاف کی سرگرم کارکن ہیں۔
سابق وزیراعظم نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنے کزن کے ذریعے جے آئی ٹی تحقیقات کرائیں جبکہ تحقیقات میں ان کی جانبداری عیاں ہے۔نواز شریف نے کہا کہ ‘جے آئی ٹی ممبر عامر عزیز بھی جانبدار ہیں جو سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں جب کہ وہ پرویز مشرف دور میں میرے اور فیملی کیخلاف نیب ریفرنس نمبر 5 کی تحقیقات میں شامل رہے’۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘جے ا?ئی ٹی کے ایک اور رکن عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے جنہیں جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا’۔سابق وزیراعظم نے ایک اور اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا، موجودہ سول ملٹری تعلقات میں تناو¿ کے اثرات جے آئی ٹی رپورٹ پر پڑے۔نواز شریف نے کہا کہ سول ملٹری تناو¿ پاکستان کی تاریخ کے 70 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے، پرویز مشرف کی مجھ سے رقابت 1999 سے بھی پہلے کی ہے جنہوں نے جے آئی ٹی رکن عامر عزیز سے حدیبیہ پیپر ریفرنس میں ہمارے خلاف تحقیقات کرائیں۔
نواز شریف نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف علاج کے بہانے بیرون ملک گئے اور اس وقت خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے خلاف سنگین غداری کیس کے بعد تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔نواز شریف نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے حکم کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا’۔سابق وزیراعظم نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے اس لیے ان کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔
مذکورہ کیس کی 18 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے ملزمان کو دیئے گئے سوالنامے پر اعتراض کردیا تھا، جس پر عدالت نے آخری چانس دیتے ہوئے کہا تھا کہ 21 مئی کو ملزمان کے بیانات قلمبند ہوں گے۔یاد رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا شریف خاندان کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور وہ اپنا بیان قلمبند کروا چکے ہیں۔
دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں وکیل صفائی خواجہ حارث کی جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا پر جرح جاری ہے، جس کی آئندہ سماعت منگل 22 مئی کو ہوگی۔