سپریم کورٹ کی جانب سے پارٹی صدارت سے نا اہلی کا فیصلہ آتے ہی نواز شریف نے تاریخی ریکارڈ بنا ڈالا
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نا اہل قرار دے کر گو کہ ن لیگی حلقوں میں بجلیاں گرا دیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی نواز شریف کے نام کے ساتھ ایک ایسا ریکاڑ بھی جڑ گیا ہے جو اس سے قبل پاکستان میں کسی بھی شخص کے حصہ میں نہیں آیا ،نواز شریف ملکی سیاسی تاریخ کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے 8ماہ کی کم ترین مدت میں دوسری مرتبہ ’’ نا اہل ‘‘ قراردیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق 1985میں پہلی مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے والے محمد نواز شریف نے 1990میں پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجایا تاہم صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات کے باعث 1993ء میں انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے اور ’’جنرل وحید کاکٹر ‘‘ فارمولے کے تحت وہ وزیر اعظم ہاؤس سے اپنا سامان پیک کر کے ماڈل ٹاؤن اپنے گھر واپس پدھارے۔1997ء کے عام انتخابات میں انہیں ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل ہوئی اور وزیر اعظم ہاؤس ان کا مسکن ٹھہرالیکن اس مرتبہ بھی وہ اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999میں نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا بلکہ پہلے انہیں طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیا تاہم بعد ازاں ایک ڈیل کے تحت نواز شریف کو اہل خانہ سمیت 10سال کے لئے جلا وطن کر دیا گیا ۔2013ء کے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی وزارت عظمیٰ کا تاج تیسری مرتبہ ان کے سر پر سج گیا ،اس مرتبہ نواز شریف نے ایک نیا ریکارڈ اپنے نام کیا اور ملکی تاریخ کے وہ پہلے شخص قرار پائے جنہوں نے تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالاتاہم تیسری مرتبہ وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے فوری بعد انہیں عمران خان جیسے’’ ضدی شخص‘‘کی طاقتور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا یہ تیسرا دور انتہائی ہنگامہ خیز رہا تاہم یہ دور اُن کے سیاسی کیرئیر میں پہلا طویل ترین دور قرار پایا جس میں ان کی حکومت کا دورانیہ 4سال سے زیادہ رہا ۔28جولائی2017کو سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے پاناما کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا ،یوں نواز شریف تیسری مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے اور انہیں چار سال ایک ماہ 22دن بعد ہی اقتدار سے الگ ہونا پڑا ۔ نواز شریف نے اپنی نا اہلی کے عدالتی فیصلے کو مسلسل کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور مسلسل آٹھ ماہ سے وہ اس فیصلے کے خلاف ملک گیر جلسوں میں’’ووٹ کے تقدس ‘‘ کے نام پر عدلیہ کے خلاف عوامی عائے عامہ ہموار کر رہے ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی انکے شانہ بشانہ ہیں جنہیں بعض لیگی حلقے پسند نہیں کرتے ۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے 3اکتوبر 2017ء کو پارلیمنٹ سے الیکشن ایکٹ2017ء میں ترمیمی بل پاس کر لیا جس میں قانون سازی کی گئی کہ قانونی طور پر نا اہل قرار دیئے گئے کسی بھی شخص کو پارٹی صدارت کے اہل قرار دیا گیا تھا،اس ترمیم کے بعد ایک بار پھر نواز شریف کے لئے پارٹی صدارت سنبھالنے کی راہ ہموار ہوئی اور انہوں نے دوبارہ متحرک ہوتے ہوئے حکمران جماعت کے پارٹی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے آئندہ عام انتخابات سمیت ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا لیکن اس ترمیمی اصلاحات کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، شیخ رشید احمد ، پیپلز پارٹی اور جمشید دستی کے علاوہ دیگر افراد اور جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایک نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کی اجازت دینا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ان درخواستوں پر آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی نا اہل قرار دے دیا ہے ۔اس فیصلے کے بعد میاں نواز شریف نے ایک اور ’’ریکارڈ ‘‘اپنے نام کر لیا ہے ،وہ ملکی سیاسی تاریخ میں وہ پہلے سیاست دان ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے پہلے وزارت عظمیٰ اور پھر 7ماہ 23دن بعد پارٹی صدارت سے بھی نا اہل قرار دیا ،اس لحاظ سے نواز شریف آٹھ ماہ کی کم ترین مدت میں دو مرتبہ سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے والے ملکی سیاسی تاریخ کے پہلے شخص بن گئے ہیں ۔