شاباش جناب پرائم منسٹر عمران خان : آپ نے تو مجھے حیران کر ڈالا ۔۔۔۔۔ نیویارک ٹائمز کے لیے اپنی خصوصی تحریر میں فاطمہ بھٹو نے شاندار بات کہہ ڈالی
نامور نوجوان خاتون اور مشہور کالم نگار فاطمہ بھٹو نیو یارک ٹائمز کے لیے اپنے ایک خصوصی کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ایٹمی اسلحہ رکھنے والے دوممالک پاکستان اور بھارت 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد سے کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوںملکوں کی افواج1999,1971,1965,1947ء میں ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ء ہو چکی ہیں۔ان جنگوں کے درمیانی عرصے میں بے شمار جھڑپیں ‘کراس بارڈر حملے اور دہشت گردی کی خفیہ حمایت
کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ میرے ملک اور اس کے ہمسائے میں کبھی امن کی فضا قائم ہوئی ہو‘مگر میں نے دونوں کے درمیان کوئی ایسی جنگ بھی نہیں دیکھی ‘جو ٹوئٹر اکائونٹس پر لڑی گئی ہو۔ 14فروری کو ایک خود کش بمبار نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پیرا ملٹری فورسز کے کانوائے پر حملہ کر دیا ‘ جس کے بعد ایک کالعدم عسکری گروپ جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔بھارت نے الزام لگایا کہ اس حملے میں پاکستان کاہاتھ ہے‘ جب کہ پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور یہ موقف اپنایا کہ اگر بھارت اس حملے سے متعلق کوئی ٹھوس انٹیلی جنس معلومات فراہم کرے تو وہ ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرے گا‘مگر آج تک کسی قسم کی کوئی معلومات پاکستانی حکومت کو فراہم نہیں کی گئیں۔ منگل کی شب ‘بھارت کے جنگی طیارے پرواز کرتے ہوئے پاکستانی علاقے میں داخل ہوئے اور 1971ء کے بعد یہ پاکستان اور بھارت کی فضائی افواج میں پہلی براہ راست لڑائی تھی۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے جو صرف دو مہینے بعد عام انتخابات میں جانے والی ہے‘ یہ دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بالا کوٹ میں واقع دہشت گردوں کے ایک ٹریننگ کیمپ کو نشانہ بنا یا ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے یہ کہہ کر ان حملوں کی تردید کر دی
کہ بھارتی طیاروں نے اپنا پے لوڈ پاکستانی علاقے میں ضرور گرایا ہے‘ مگر اس سے کسی قسم کا جانی یا انفرا سٹرکچر کا نقصان بالکل نہیں ہوا۔ بھارت میں سوشل میڈیا پر اس کے صحافیوں نے ان حملوں کے بعد ایک جشن ِمسرت منایا۔بالی وڈ کے فلمی اداکاروں نے ‘ جنہوں نے صرف فلموں کی حد تک جنگوں میں حصہ لیا ہے‘ اپنے ٹوئٹر پر مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔اجے دیو گن نے ٹویٹ کیا جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا ”ہم سے پنگا لو گے تو ایسی موت ہی مرو گے۔‘‘روینا ٹنڈن نے اپنے ٹوئٹر پیغام میںلکھا ”کیا دھماکہ خیز صبح ہے !‘‘کنگنا رنائوت نے ایک فلم کو پرمو ٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”ہمارا فوکس پاکستانی فن کاروں پربالی وڈ کے دروازے بند کرنے پرنہیں ہے ‘بلکہ پاکستان کی تباہی پرہے۔‘‘ جس فنکار نے بھی امن و آشتی اور تحمل کے حق میں اپنی آواز اٹھائی‘ اس پر فوری طور پر ”بھارت دشمن اور غدار ‘‘کا لیبل لگا دیا گیا۔کسی شادی پر مٹھائی کی تقسیم کی طرح ٹوئٹر پر پیغامات چھوڑے گئے‘ جوکچھ اس طرح تھے۔#indiastrikes back,#terroristanpakist an,#pakapologist,وغیرہ وغیرہ۔پاکستان میں نسبتاً زیادہ شائستگی اور تحمل مزاجی کا مظاہر ہ کیا گیا ہے؛اگرچہ بعض عناصر نے انتقام لینے کی بات بھی کی ہے‘ مگر میرے سمیت پاکستانی عوام کی اکثریت نے طبل جنگ بجانے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔بلاشبہ یہاں بھی ملی جلی آوازیں سننے میں آ رہی تھیں۔معروف پاکستانی صحافی حامد میر نے بھارت کے فضائی حملے کے اگلے ہی روز بالا کوٹ کے علاقے میںواقع گائوں جبہ کا دورہ کیا
اور ایک سرسبز و شاداب پتوں سے بھرے ہوئے جنگل میں کھڑے ہو کر رپورٹنگ کی اور دنیا بھر کے میڈیا کو بتایا کہ وہاں پر کسی قسم کے انفرا سٹرکچر کی تباہی نظر نہیں آرہی ‘نہ وہاں سے انسانوںکے جنازے اٹھے ہیں‘ نہ وہاں کوئی خون دیکھا گیا اور نہ وہاں کوئی لاشیں پڑی نظر آرہی ہیں۔انہیں موقع پر ایک ہی لاش نظر آئی اور انہوں نے فوراً اپنے الفاظ کی تصحیح کر لی اور بتایا کہ یہ لاش ایک مردہ سیاہ کوے کی ہے۔ آج بھی ہم تشدد اور کشیدگی کی ایک عمودی چٹان پر کھڑے ہیں۔پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والے دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے ہیں اور اس امر کی بھی تصدیق کی ہے کہ بھارتی ایئرفورس کا ایک پائلٹ بھی ہماری تحویل میں ہے۔سرحد پار جنگی جنونیوں نے بھارتی حکومت کی ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری کی تصدیق سے بھی پہلے ٹوئٹر پر #pakfakeclaim,کا اودھم مچا دیا۔جب کہ بعض پاکستانی تبصرہ نگاروںنے بھی بھارتیوں کے مقابلے میں کچھ اس طرح کے ٹویٹ کر دیئے #pakistan strikes back,(جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا)اور ساتھ ہی کچھ ویڈیو کلپس بھی شیئر کر دیئے‘ جس میںلوگ فتح کے نشے میںسرشار نعرے لگا رہے تھے۔ ہماری اکثریت نے پھر بھی اپنے ملک کے ایٹمی جنگ کی راہ پر گامزن ہونے کی مخالفت کی۔پاکستان کی حالیہ تاریخ خون آشام ہے اورہمارے شہریوں سے زیادہ قتل و غارت کا سامنا کسی نے نہیں کیا‘مگر ہمارے ہاں آمریت کی ایک طویل تاریخ ‘ دہشت گردی کے دلدوز تجربے اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار رہنے کی وجہ سے
پاکستان میں بسنے والی میری نسل کے دل و دماغ میں جنگ یا جنگی جنون کیلئے کوئی ہمدردی یابرداشت نہیں ہے۔ سہ پہر کے وقت پاکستان میں #saynotowarکا ٹرینڈ شروع ہو گیا‘جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں ٹوئٹر پر نمبر oneٹرینڈ بن گیا؛حتیٰ کہ وزیر اعظم عمران خان نے جن پر میں کھل کر تنقید کرتی رہتی ہوں‘ اس وقت مجھے حیران کر دیا جب وہ سہ پہر کے وقت ٹی وی پر نمودار ہوئے اور دونوں ممالک میں امن کے فروغ کی بات کی۔”میں بھارتی حکومت سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح کے ہتھیار ہم دونوں ممالک کے پاس ہیں‘ کیا ہم کسی قسم کی Miscalculationیعنی غلط اندازے افورڈ کر سکتے ہیں؟اگر اس کشیدگی میںاضافہ ہوتا ہے‘ تو یہ ہمیں کدھر لے جائے گی؟‘‘کوئی بھی ملک ہو ‘وہ یہی اخلاقی مؤقف اپنا سکتا ہے۔اس وقت جب جنگی عروج اپنے عروج پرنظر آتا ہے ‘پاکستان اور بھارت دونوں کا یہ اولین فرض ہے کہ اسی اخلاقی موقف کے علمبردار بنیں۔2007ء میں ایک اینٹی نیوکلیر تنظیمPhysicians for Social Responsibilityنے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو دنیا بھر کے ایک سے دو ارب شہری بھوک اور بیماریوں کے شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔میرے سمیت بہت سے پاکستانیوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امن ‘انسانیت اور وقار پر اپنے عزم ویقین کے اظہار کے طور پر گرفتار بھارتی پائلٹ کو رہا کر دیا جائے۔ہماری پوری زندگی جنگیں لڑتے گزر گئی ہے۔میں کسی پاکستانی فوجی کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی اسی طرح میں کسی بھارتی فوجی کو بھی مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ہم برصغیر کو یتیموں کی سر زمین نہیں بنانا چاہتے۔میری پاکستانی نسل نے اظہارِ رائے کے حق کی خاطر جنگ لڑی ہے اور ہم امن کے مقدس مشن کیلئے اپنی آواز بلند کرنے سے ذرہ برابر بھی خوف محسوس نہیں کرتے۔(ش س م)