بندوق کی میگزین پر ٧٣٢ ٹورس لکھا ہے جو ١٠ فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک ہے- دہشتگرد کی بندوق پر لکھے ناموں کی تاریخی حقیقت جانئے
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نماز جمعہ کے وقت ہونے والی پچاس کے قریب نمازیوں کی شہادت کو مغربی ذرائع ابلاغ دہشت گردی کے بجائے shootings کا نام دے رہے ہیں جبکہ دہشت گرد کو ذہنی مریض بتایا جارہاہے..
حالانکہ ذرا سا غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ کسی ذہنی مریض کا انفرادی حملہ نہیں بلکہ ایک انتہاپسند مذہبی جنونی کا پوری پلاننگ سے کیا گیا حملہ ہے جس کے پس منظر میں مکروہ سوچ اور اس کے ساتھ پورا گروہ ملوث ہے. .
حملہ آور کی گن ,میگزین اور بلٹ پروف جیکٹ پر مختلف نام اور کچھ واقعات بمعہ تاریخ لکھے ہیں جس کا پس منظر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغرب میں انتہا پسندی کن حدوں کو چھو رہی ہے..
بندوق کے میگزین پر tours 732 لکھا ہے.. وہی جنگ ٹورس جو تاریخ کی دس سب سے زیادہ فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک ہے جس میں خلافت بنو امیہ کے عظیم جرنیل عبدالرحمان الغفیقی کی قیادت میں مسلم لشکر فرانس کے شہر ٹورس میں مغربی فوجوں سے ٹکرایا تھا مگر بدقسمتی سے اس میں مسلم فوجوں کو شکست ہوئی تھی.. تاریخ دانوں کے مطابق اگر اس جنگ میں مسلمان فاتح رہتے تو پورے یورپ پر آج تک مسلمانوں کا قبضہ ہوتا اور تاریخ کا دھارا مختلف ہوتا مگر مغربی فوجوں کے سالار charles martel کی شجاعت و بہتر حکمت عملی کی بدولت مسلم لشکر پھر کبھی یورپ میں اس سے آگے نہ بڑھ سکے اسی لئے ٹورس میں آج بھی مقام جنگ کے میدان پر کتبہ لگا ہے جس پر کچھ یوں لکھا ہے "یہاں شیطان کے قدم روک دیے گئے” مسجد پر حملہ کرنے والے دہشتگرد نے بھی charles martel کا نام اپنی بندوق کی نالی پر لکھا ہے.. جنگ ٹورس میں مسلم امیر لشکر سمیت ہزاروں مسلمانوں کی شہادت کی بدولت ہی عربی میں اسے "معرکہ بلاط شہدا” بھی کہا جاتا ہے.
بندوق پر sigismund of luxemburg کا نام بھی لکھا ہے. اس بادشاہ نے سلطنت عثمانیہ کےخلاف "جنگ نکو پولس” میں صلیبی لشکر کی قیادت کی تھی اور بلغاریہ کو ترکوں سے آزاد کروایا تھا.. بعدازاں اس نے مسلمانوں سے لڑنے کیلئے مسیحی فوجوں کے مستقل اتحاد order of the dragon بھی تشکیل دیا تھا..
حملہ آور کی بندوق پر ایک اور نام feliks kazimiers potocki کا بھی ہے اس پولش جنگجو نے عثمانی ترکوں کے خلاف لڑائیوں میں شمولیت سے شہرت حاصل کی تھی اور بعدازاںbattle of podhajce میں اس نے مسلم تاتایوں کو فیصلہ کن شکست دی تھی..۔ اسی طرح ایک اور نام josue estabnez کا بھی ہے اس سپینی نیشلنسٹ نوجوان کا مہاجرین نے 2007 میں قتل کردیا تھا ۔۔۔ حملہ آور کی بندوق پر ایک اور نام sebestiano venier کا ہے یہ مشہور بحری جنگ battle of lepanto میں صلیبی فوجوں کا امیر بحر تھا اور اسکی قیادت میں عثمانی بحریہ کو شکست دی گئی تھی..
ایک اور نام جو ہمیں بندوق پر لکھا نظر آتا ہے anton lundin petterson کا ہے اس اکیس سالہ سویڈش نوجوان نے سکول میں حملہ کرکے 2015 میں دو مہاجر اساتذہ اور ایک طالب علم کو مار دیا تھا بعدازاں خود بھی پولیس کے ساتھ مقابلہ میں مارا گیا تھا.
حملہ آور کی بندوق پر ایک اور نام Skanderberg کا بھی لکھا ہے. ماضی میں ترک فوج کے افسر رہنے والے اس البانوی جنگجو نے نیپلز اور وینس کی فوجوں کے ساتھ مل کر پندرہویں صدی کے وسط میں مقدونیہ اور البانیہ میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوتوں میں اہم کردار ادا کیا تھا.
حملہ آور کے میگزین پر ایک چھوٹا سا غیر واضح نام bragadin کا بھی لکھا ہے antonio marco bragadin ریاست وینس مشہور عسکری کمانڈر تھا جس نے عثمانیوں کی جانب سے کیے گئے محاصرہ فیما گسٹا ” seige of famagusta” کے دوران ایک معاہدہ توڑتے ہوئے سینکڑوں ترک فوجیوں کو مار ڈالا تھا اور بعدازاں ترکوں کے ہاتھوں ہی عبرت ناک موت سے دوچار ہوا تھا.
بندوق کی ٹریگر پر alexendere bissonate کا نام ہے جس نے 2017 میں کینیڈا کے شہر کیوبک میں مسجد پر حملہ کرکے چھ نمازیوں کو شہید کردیا تھا..
بندوق پر viana 1683 بھی لکھا ہے جو کہ سلیمان عالی شان کی جانب سے کیے جانے والے مشہور محاصرہ ویانا کی یاد دلاتا ہے…. جس کی قیادت مصطفیٰ پاشا نے کی تھی اور یہ عثمانیوں کی جانب سے تسخیر یورپ کی آخری بڑی کوشش تھی جسے یورپی اتحاد کے سربراہ johm 3 sobieski کی قیادت میں سخت مقابلے کے بعد صلیبیوں نے ناکام بنادیا تھا.. یورپ میں آج بھی اس محاصرے کو یاد کیا جاتا ہے..
حملہ آور نے بندوق کے ایک میگزین پر acre 1189 بھی لکھا جو کہ مشہور محاصرہ ایکر کی یاد دلاتا ہے جب یروشلم کے صلیبی بادشاہ king guy نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف جوابی حملہ کیا تھا یہ محاصرہ دو سال تک جاری رہا جس میں صلیبیوں کو کامیابی ملی بعدازاں یہ تیسری صلیبی جنگ کا باعث بنا..
حملہ آور کی بندوق پر iosif gurko کا نام بھی لکھا ہے جو کہ انیسویں صدی کا روسی فیلڈ مارشل تھا اس نے ترکوں کے خلاف مختلف جنگوں اور خاص کر جنگ کرائمیا میں عثمانی فوجوں کے خلاف داد شجات دکھائی تھی… حملہ آور نے بندوق کی نالی پر refugees welcome in hell بھی لکھا ہے جس میں مہاجرین کو مغربی ممالک میں آنے پر جہنم پہنچانے کی دھمکی دی ہے…
حملہ آور نے اپنا انجام جانتے ہوئے یہ سب باتیں انتہائی باریکی سے لکھی ہیں جو مسلمانوں سے شدید نفرت اور ماضی کی صلیبی جنگوں سے محبت اور ان کے دوبارہ آغاز کا واضح پیغام دے رہی ہیں اور یہ مائند سیٹ خاص کر مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے…
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ بندوق پر جن جنگجوؤں کے نام لکھے ہیں وہ قومیتوں کے اعتبار سے پولش, روسی, سپینی , کینیڈین,رومی, جرمن لکسمبرگ اور فرانسیسی ہیں مگر ان سب میں مشترک بات اسلام دشمنی تھی یعنی حملہ آور تمام مسیحیوں کو ایک ملت سمجھتا ہے…
فرقوں اور فقہی مسلئوں میں الجھی امت مسلمہ کیلئے یہ مقام عبرت ہے کہ آپ کا دشمن ہزار سال بعد بھی کچھ نہیں بھولا وہ اپنی تاریخ سے آشنا بھی ہے اور اس کے لئے اب بھی دشمن بھی آپ ہی ہیں .. اسے اپنی فتوحات پر ناز بھی ہے اور اپنے سالاروں کی بہادری کی داستانوں پر فخر بھی..
کہہں پڑھا تھا کہ lawrence of arabia کو بھی بچپن سے knights templers کی داستانوں سے لگاؤ اور شام میں موجود صلیبی قلعوں کی باقیات سے شدید محبت تھی… اور جب جنگ عظیم اول میں اتحادی فوجوں نے معرکہ حطین میں عبرت ناک شکست کے سات سو سال بعد دوبارہ یروشلم کو فتح کیا اور بلاد شام میں فاتح فرانسیسی جنرل ہنری گراؤڈ نےدمشق میں داخل ہوتے ہی سے سب سے پہلے جامعہ امیہ کے عقب میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے مقبرے پر قدم رکھا تو یہ تاریخی الفاظ کہے.
"awake Saladin we’re back”
مگر خیر ہمیں تاریخ سے کیا رغبت……
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے……..