’’ انسان دوستی کی لازوال مثال ‘‘ کل تک جس کا کوئی نام نہیں جانتا تھا اُس عظیم خاتون ’ جیسندا آرڈرن ‘ نے نئی تاریخ رقم کر دی، ایسا کارنامہ سر انجام دے ڈالا کہ نیوزی لینڈ کا نام ہمیشہ کے لیے بلند ہوگیا
پاکستان کے نوجوانوں میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسندا آرڈرن ایک قابل احترام اور مقبول شخصیت کے طور پر ابھری ہیں. ایک رپورٹ کے مطابق کرائسٹ چرچ سانحہ سے پہلے تک عام پاکستانی شہری وزیراعظم جیسندا آرڈرن کے نام سے بھی واقف نہیں تھے مگر آج وہ ایک قابل احترام اور مقبول
شخصیت کے طور پر جانی جارہی ہیں.رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے مسلمان نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو ای میل‘سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے پغامات ارسال کرکے ان کی تعریف وتوصیف کرررہے ہیں. وزیراعظم جیسندا آرڈرن اپنی پارلیمنٹ میں کرائسٹ چرچ مسجد میں فائرنگ کےمرتکب دہشت گرد کو مجرم انتہا پسند قرار دیتے ہوئے اس کا نام نہ لینے کا اعلان دنیا بھر میں دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نفرت کا واضح پیغام دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی قسم کی ہمدردی یا مدد کے مستحق نہیں .ان کی جانب سے یہ کہا جانا کہ میں یہاں صرف ان کے نام لینا چاہتی ہوں جو شہید
ہوئے اور خصوصاً حملہ کے دوران دہشت گرد کو روکنے والے پاکستانی ہیرو نعیم رشید کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں جس نے اپنی جان دے کر کئی زندگیوں کو بچایا‘ یہ دراصل وہ احساس اور خدمات ہیں جو دہشت گردوں سے نمٹنے والوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے ہیں. کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں ہونے والی دہشت گردی پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی جانب سے اختیار کئے جانے والے طرزعمل نے شہدا کے عزیز و اقارب نے ان کی جانب سے یکجہتی کا اظہار، دکھ کرب اور غم کی فضا میں ان سے لپٹنا اور حوصلہ دینا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ خالصتاً انسانی جذبہ کے تحت مسلمانوں کے دکھ میں شامل ہوئیں۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے بھی مسلم عیسائی اور یہودیوں سمیت تمام مذاہب کے
لوگوں سے کہا گیا ہے کہ انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ رجحانات سے نمٹنے کیلئے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے.یورپ اور مغرب سے ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں کہ دہشت گردی کا تعلق کسی نسل’ مذہب اور فرقے سے نہیں۔ یہ انسانیت کی دشمن ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے اس کی جڑیں کاٹنے کیلئے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا. یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ جہاں ایک جانب نیوزی لینڈ کے اس واقعہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا وہاں مغرب سے مشرق کے مقابلہ میں زیادہ موثر آوازیں اٹھتی نظر آتی ہیں اور اس کا کریڈٹ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو جاتا ہے جو نیوزی لینڈ کی 150 سالہ تاریخ میں سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں اور انہوں نے کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر پہلے ہی روز سانحہ کے فوری بعد حملہ کے مرتکب شخص کو دہشت گرد قرار دیا اور
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فونک کال پر مدعو ہونے کی بجائے واضح طور پر کہا کہ مرنے والے انسان ہیں اور ہمیں انسانیت کے ناطے ان کے دکھ غم میں ان کا ساتھ دینا ہے۔آج دنیا کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو انسانیت کے قتل و عام کو مختلف مذاہب اور عقیدوں کی عینک سے دیکھنے کی بجائے انسانیت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی عوام کے سامنے بھی سرخرو ہوتے ہیں. نیوزی لینڈ چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن چھوٹے ملک کی وزیراعظم نے بڑے پن کا مظاہرہ کر کے اپنی قیادت کو دنیا میں سرخرو کیا ہے. نیوزی لینڈ کی حکومت نے نہ صرف شہدا کی تدفین کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا بلکہ قتل عام کی وجہ سے آمدنی کا ذریعہ گنوا دینے والے افراد’ ان کے عزیزو اقارب کو سالوں تک مالی مدد فراہم کرنے کا اعلان کر کے انسان دوستی کی ایسی مثال قائم کی ہے جو مدتوں یاد رہے گی.