نگران وزیر اعظم کون ہو گا؟ پی ٹی آئی نے شاہد خاقان عباسی کو بڑی خوشخبری سنا دی
نگران وزیراعظم کے لئے جو تین نام وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تجویز کئے ہیں، حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی ان میں سے 2امیدواروں کی حمایت کر رہی ہے۔ وزیراعظم عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی طرف سے دیئے گئے 6ناموں میں سے تین ایسے ہیں جن کا تعلقجنوبی پنجاب کی ایک ہی فیملی سے ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر ا
گر کسی نام پر اتفاق نہ کرسکے تو آئین کے آرٹیکل 224Aکے مطابق معاملہ 8رکنی پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائیگا اور اگر پارلیمانی کمیٹی بھی نگران وزیراعظم کے لئے کسی ایک نام پر اتفاق رائے پیدا نہ کرسکی تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جائے گا اور اس صورت میں ریٹائرڈ ججز جن کے نام نگران وزیراعظم کی فہرست میں شامل ہیں وہ مضبوط امیدوار بن جائیں گے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی، جسٹس (ر) ناصرالملک اور شمشاد اختر کے نام تجویز کئے ہیں جبکہ قائد حزب اختلاف نے جلیل عباس جیلانی، سلیم عباس جیلانی اور ذکاء اشرف کے نام تجویز کئے ہیں۔ تحریک انصاف نے گزشتہ ہفتے جسٹس تصدق جیلانی کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ترجمان نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ان کی
جماعت کو جسٹس (ر) ناصر الملک پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ یہاں تمام 6امیدواروں کی مختصر پروفائل پیش کی جارہی ہے۔جلیل عباس جیلانی: ان کا تعلق پاکستان کی وزارت خارجہ سے ہے اور انہوں نے امریکہ میں دسمبر 2013ء سے مارچ 2017ء تک پاکستان کے 22ویں سفیر کے طور پر فرائض انجام دیئے ہیں۔مارچ 2012ء سے دسمبر 2013ء تک وہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے لاء گریجوایٹ ہیں اور 1979ء میں وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے پہلے ادوار میں جلیل عباس جیلانی وزیراعظم ہائوس میں بطور ڈپٹی سیکرٹری خدمات انجام دیتے رہے اور جنرل مشرف کے دور میں بھارت میں ڈپٹی ہائی کمشنر کے طور پر کام کیا۔ بھارت میں اپنی مدت کی تکمیل کے بعد وہ پاکستان کی وزارت خارجہ میں جنوبی ایشیا ڈیسک پر 2007ء تک تعینات رہے اور بعد ازاں دفتر خارجہ کے ترجمان بھی رہے۔ بھارت اور امریکہ کے علاوہ انہوں نے آسٹریلیا، سعودی عرب، برطانیہ میں بھی
خدمات انجام دیں۔ جلیل عباس جیلانی سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے چھوٹے بھائی ہیںاور ملتان کی اہم ترین بیوروکریٹ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔سلیم عباس جیلانی: سابق سول سروس آفیسر سلیم عباس جیلانی تین بھائیوں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی، آڈٹ اینڈ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ کے غضنفر عباس جیلانی اور سابق سفارتکار جلیل عباس جیلانی کے کزن ہیں، سلیم عباس جیلانی 1957 ء میں سول سروس میں شامل ہوئے اور 1996 ء میں ریٹائر ہوئے، انہوں نے 7سال بطور سیکرٹری دفاع کام کیا، وہ پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر، پی آئی اے،سول ایوی ایشن اتھارٹی، فوجی فائونڈیشن ، پاکستان سٹیل، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ، رائس ایکسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان اور پارکوجیسے اداروں کے چیئرمین طو رپر کام کرتے رہے ،سلیم عباس جیلانی چیف سیکرٹری سندھ و بلوچستان اوروفاقی سیکرٹری برائے دفاعی پیداوار بھی رہے۔ذکاء اشرف :گجر ذات کے ذکاء اشرف پنجاب کے اہم کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن
ہونے کے علاوہ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریب سمجھے جاتے ہیں، ان کی بہن بیگم عشرت اشرف مسلم لیگ ن کی سینئر رہنما ہیں، 2008ء میں پی پی پی حکومت نے ذکاء اشرف کو زرعی ترقیاتی بنک کا صدر بنایا تاہم لاہور ہائیکورٹ نے ان کی تعیناتی غیر قانونی قرار دے دی، 2011ء میں انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین لگا یا گیا،اب وہ اشرف گروپ آف انڈسٹریز کے چئیرمین ہیں اور بہاولپور میں اشرف شوگر ملز کے مالک ہیں، وہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چئیرمین بھی رہے، اشرف گروپ آف انڈسٹریز کی ویب سائٹ کے مطابق یہ گروپ چینی بنانے سے لیکر گرین انرجی، پتھر اور کوئلے کی کان کنی، رئیل اسٹیٹ، پارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ، لائیو سٹاک اور دودھ کی مصنوعات میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اگرچہ ذکاء اشرف آصف زرداری کے اہم آدمی سمجھے جاتے ہیں تاہم انہیں اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے ’ناقابل قبول ‘نہیں کہا گیا۔جسٹس (ر) تصدق جیلانی:دسمبر 2013ء سے جولائی 2014ء تک پاکستان کے چیف
جسٹس رہے،سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق جسٹس (ر) جیلانی لبرل ، آزاد، اورمتوازن جج تھے،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے طور پر انہوں نے بنیادی حقوق سے متعلق داخلی اور بین الاقوامی نوعیت کے مسائل کے بارے میں فیصلے کیے ۔جسٹس (ر) جیلانی نے ایف سی کالج لاہور سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ، پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی اوریونیورسٹی آف لندن کے انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس لیگل اسٹڈیزسے کانسٹیٹیوشنل لاء میں ایک کورس مکمل کیا۔ انہوں نے 1974ء میں ضلع کچہری ملتان سے پریکٹس کا آغاز کیا، 1976ء میں ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ اورملتان بار کے جنرل سیکرٹری جبکہ 1978ء میں پنجاب بار کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ 1979ء میں وہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بنے جبکہ 1983ء میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بنے۔1988ء میں ان کی
ترقی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے طور پر ہوئی 1993ء میں انہیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تعینات کیا گیا، 7 اگست 1994ء کو لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے،انہوں نے ہائیکورٹ میں 10 سال فرائض انجام دیے اور 1999ء میں مشرف کے مارشل لاء کے تحت حلف اٹھایا، 2004ء میں انہیں سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا جہاں 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ تک کام کرتے رہے اور مشرف کے دوسرے مارشل لاء کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا، تاہم بعد میں نائیک فارمولا کے تحت دوبارہ سپریم کورٹ میں کام کرنے لگے۔ جسٹس (ر) جیلانی نے متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں انسانی حقوق کے نفاذ، صنفی تعصب،جبری شادیوں، مذہبی رواداری ،جھگڑوں کے فیصلوں ، بچوں کے اغواء کیلئے متبادل نظام جیسے موضوعات پر بات کی، انہیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔جسٹس (ر)ناصرالملک:17اگست1950ء کو مینگورہ سوات میں پیدا ہونے والے جسٹس (ر) ناصر الملک جولائی 2014ء سے 16 اگست 2015ء تک چیف جسٹس پاکستان رہے، وہ سابق سینیٹر سیٹھ کامران خان کے بیٹے ہیں،وہ سابق سینیٹر شجاع الملک اور سابق تحصیل ناظم رفیع الملک کے بھائی ہیں،انہوں نے 1976 میں انر ٹیمپل لندن سے بار ایٹ لاء کیا ، خیبر لاء کالج پشاور، پشاور یونیورسٹی اور کے پی پروونشل سروسز اکیڈمی میں بطور گیسٹ اسپیکر لیکچر دیتے رہے، 1981 میں پشاور بار کے سیکرٹری جنرل بنے اور تین بار صدر بھی رہے،1993 ء میں
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوابنے، 17 سال تک قانون کی تمام جہات میں پریکٹس کے بعد 4 جون 1994ء کو پشاور ہائی کورٹ کے جج بنے، 31 جولائی 2004ء سے 5 اپریل 2005ء تک پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے، 2009ء میں چیئرمین فیڈرل ریویو بورڈ رہے، بطور قائمقام چیف الیکشن کمشنر اورجج انچارج فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی بھی کام کیا، مختلف عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ انہوں نے 2013 ء میں امریکا میں پاکستانی ججوں اور قانون سازوں کے وفد کی قیادت کی۔ جسٹس (ر) ناصرالملک نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا لیکن مشرف کی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد حلف لینے سے انکار کردیا تاہم سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی سے پہلے ’نائیک فارمولا‘ کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں میں شامل ہوئے۔شمشاد اختر:اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی 14 ویں گورنر رہنے والی شمشاد اختر ماہر معاشیات ہیں، وہ اقوام متحدہ میں انڈر سیکرٹری جنرل رہیںاور اقوام متحدہ اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسیفک کی سربراہ رہیں۔ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق شمشاد اختر نے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بانکی مون اور عالمی بنک کے سربراہ کے مشیر کے طور پر بھی کام کیا۔ شمشاد اختر حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئیں اورکراچی اور اسلام آباد میں ابتدائی تعلیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن اور 1975ء میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے معاشیات میں ماسٹرز کیا، 1977ء میں یونیورسٹی آف سسکیس سے ڈویلپمنٹ النامکس میں ماسٹرز کیا، یونیورسٹی آف ویسٹ آف سکاٹ لینڈ نے 1980ء میں انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی، شمشاد اختر نے پلاننگ کمیشن سے اپنا کیرئیر شروع کیا، انہوں نے عالمی بنک کے ساتھ پاکستان میں ملکی ماہر معاشیات کے طور پر کام کیا ، بعد ازاں فل برائٹ پروگرام کے تحت ہارورڈ یونیورسٹی کے جان ایف کینڈی سکول آف گورنمنٹ میں پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچر کے طور پر کام کیا، انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بنک کے ساتھ بھی کام کیا۔