سائنسی تحقیق ،پاکستان نے چائنہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا دنیا میں دوسری پوزیشن حاصل کرلی

پاکستان نے سائنسی تحقیق میں چائنا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کرلی ۔معروف بین الاقوامی اشاعتی ادارے Clarivate Analyticsنے دنیا بھر میں شائع ہونیوالی سائنسی تحقیقات کا تخمینہ لگایا ہے جس کی رپورٹ نیچر ڈا ٹ کام نامی ویب سائٹ پر شائع کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندر رواں سال سائنسی تحقیق کی شرح میں 15.9فیصد اضا فہ ہوا ہے جبکہ مصر میں یہ شرح 21 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے باعث وہ پہلے نمبر پر آگیا ۔واضح رہے یہ رینکنگ شائع ہونیوالی کل سائنسی تحقیقات سے متعلق نہیں بلکہ اس بات پر مبنی ہے کہ کون سے ممالک نے ماضی کے برعکس حال میں سائنسی تحقیق تیز کردی ہے۔ مثال کے طو ر پر اگر پاکستان میں2017میں ایک ہزار ریسرچ پیپر شائع ہوئے تھے تو 2018 میں یہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔

پاکستان اور مصر میں اچانک اس قدر تیزی کے پیچھے عوامل واضح نہیں تاہم ماہرین کے مطابق یہ اضافہ بیرون ممالک سے تحقیق کیلئے دیے جانیوالے فنڈز کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔نیدر لینڈز کی لیدن یونیورسٹی میں سائنس اینڈ اینوویشن اسٹڈیز کے سربراہ رابرٹ تیجسن نے کہاہے پاکستان اور مصر دونوں نے بالکل نچلی سطح سے آغاز کیا تھا اور 40 ممالک کی فہرست میں بالکل آخری نمبروں پر تھے۔رپورٹ کے مطابق چین کی سائنسی تحقیقات میں 15 فیصد اضافہ ہوا جس کے باعث وہ تیسرے نمبر پر چلا گیا جبکہ انڈیا، برازیل، میکسیکو اور ایران میں 2017 کے مقابلے میں رواں سال محض 8 فیصد اضافہ ہوا۔عالمی سطح پر 2018 میں سائنسی

تحقیقات کی شرح میں 5 فیصد اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 16 لاکھ، 20 ہزار، 731 سائنسی ریسرچ پیپرز شائع ہوئے جو ماضی کے برعکس سب سے زیادہ ہے۔اوہیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں میں سا ئنس اور ٹیکنالوجی کی ماہر اور امریکی حکومت کے سابق مشیر کیرولین واگنر کا کہنا ہے چین نے دو دہائیوں تک مربوط پالیسی کے تحت سائنسی تحقیق اور اعلی تعلیم کی شرح میں اضافہ کیا۔ ہوسکتا ہے چین بہت جلد ریسرچ پیپرز شائع کرنے میں امریکہ کو پیچھے

چھوڑ دے مگر اس کیلئے چین کو عالمی اثر و رسوخ کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھنے پڑیں گے۔ چین کے سائنسدان بھی اس بات کی شکایت کر رہے ہیں کہ انٹرنیٹ پر سنسر شپ اور ویب سائٹس بلاک ہونے کے باعث ان کی تحقیق متاثر ہورہی ہے۔ چین کی یہ صورتحال دوسرے ممالک کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ انٹرنیٹ سنسرشپ سائنسی تحقیقات کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.