پاکستان کا وہ عظیم خطاط جس کی لکھی ہوئی سورہ رحمٰن کو دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجاتے تھے ،مگر اسکے رشتہ داروں و دوستوں نے اسکے نام پر کیا گھناوناکام کیا ،یہ جان کر آپ کا خون کھول اٹھے گا

اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے جو بغیر پیسے اور خودنمائی کے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر منٹوں میں خطاطی کے نادر نمونے بنا کر دے دیتے جو ان کے گھروں کی زینت بن جایا کرتے تھے ۔انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں لیکن انکے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے انکی پینٹنگ سے کروڑوں روپے کمائے ۔

قیام پاکستان سے قبل امروہہ میں جنم لینے والے سید صادق احمد نقوی ” صادقین“ کے نام سے معروف ہوئے ،پاکستان کی بہت سی سرکاری اور اہم ترین تاریخی و ثقافتی عمارتوں میں انکی مصوری و خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں ۔سابق جنرل ضیا الحق انکے عاشق تھے ۔ان کے گھر میں صادقین کی خطاطی کے نمونے بطور تبرکاً موجود تھے۔جبکہ پاکستان میں ان کے بہت سے ایسے دوستوں اور عزیزوں نے انکی وفات کے بعد انکے تحفتاً بنائے ہوئے نمونے بیچ کر کروڑوں روپے کمائے ۔گزشتہ سال بھی صادقین کی خطاطی کا ایک ایسا نادر نمونہ ڈیڑھ کروڑڈالر میں فروخت ہواتھا ۔

پاکستان کی معروف خاتون ادیبہ اور کالم نگار کشور ناہید کے ساتھ صادقین مرحوم کے بہت مشفقانہ تعلقات تھے ۔ وہ اپنے ایک کالم میں انکشاف کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ جس نے بھی کبھی اپنی تصویر ، کبھی غالب کا کوئی شعر یا کچھ اوربنوانا چاہا۔ اس درویش نے بخوشی آدھے گھنٹے میں بناکر دیدیا۔ میرے جیسے لوگوں سے جب وہ اور شاکر علی کہتے کہ تمہیں کونسی پینٹنگ لینی ہے۔ تو میں ہنس کر کہتی ” آپ کے گرد مانگنے والے بہت ہیں، پہلے انکی غرض پوری کریں۔ میں جب اقبال ٹاﺅن میں گھر بنارہی تھی تو صادقین نے کہا ” تم مجھے ڈرائنگ روم کی ایک دیوار دیدو ، میں اسے پینٹ کرونگا“ میں نے انکی بات اسلئے نہیں مانی کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں بھی ساری دنیا کی طرح ہوجاﺅں۔ میرا غرور غلط تھا اسلئے کہ ہر اردگرد بیٹھے شخص کی طرح نہیں ہوناچاہتی تھی۔ صادقین لاہور کوئی چھ

برس تک رہے۔ اور ہر خاتون ومرد کو جس نے جوچاہا ، نوازتے رہے۔ پھر وہ سال بھر کے لئے انڈیا چلے گئے۔ حیدرآباد دکن سے لیکر دلی کی جتنی مذہبی اور علمی درسگاہ ہیں، انہیں ملیں، انکو اپنے فن مصوری سے بشاشت کے ساتھ آراستہ کرتے رہے۔ اب پھر کراچی آگئے ، کراچی میں فرئیر ہال سے لیکر مختلف عمارتوں کو اپنے فن سے نوازا۔ لاہور کا تو آپ کو علم ہی ہوگا کہ میوزیم کی چھت سے لیکر ، میوزیم کے اندر،اندر کے حاشیوں میں سورہ رحمٰن اس سلیقے سے لکھی کہ کافر بھی ایمان لے آئے۔“ کشور ناہید نے انکشاف کیا ہے کہ

جن لوگوں نے صادقین سے تصویریں بنوائی تھیں انکی وفات کے بعد بھاری قیمت پر فروخت کرنے کے لئے، اپنے بلوں سے نکل کر آرٹ گیلریوں کا رخ کیا۔ اس میں ضرورت مندیا امیر کبیروں کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ البتہ یہ چیک کرا لیتے تھے کہ یہ اصل ہے کہ کاپی کیونکہ انکا شاگرد ، ایک مدت تک ، انکی نقل ، اصل کے برابر بناکر بیچتا رہا۔ جب یہ منظر دیکھاتو صادقین کے رشتہ دار پیسہ کمانے کے لئے سامنے آگئے ۔ صادقین کے لئے آرٹ گیلری بنانے کو انہیں جوزمین ملی تھی۔ اس پروہ ایک مدت تک شادی ہال بناکر ، زرکثیر جمع کرتے رہے۔ جب سرکار کو ذرا ہوش آیا تووہاں اب خطاطی سینٹر اور کوئی اسکول بنادیا گیا ہے۔ تاہم اب انہوں نے صادقین کی مصوری کی کافی بک لاکھوں روپے میں بنائی اور فروخت کی ۔اب جو کچھ میں لکھ رہی ہوں، وہ آنکھوں دیکھا ہے ، سناسنایا نہیں ہے۔ ہر گھر سے صادقین کی دوتین پینٹنگز نکلنے لگیں اور فروخت ہونے لگیں“

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.