’پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اب دنیا میں سب سے۔۔۔‘ایسا دعویٰ سامنے آگیا کہ بھارت میں کھلبلی مچ گئی
جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کی صف میں پاکستان سب سے آخر میں شامل ہو الیکن اس بات میں کسی کو بھی شبہ نہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس کلب کے دیگر ارکان کی نسبت ناصرف کم نہیں ہے بلکہ اکثر سے بہتر بھی ہے۔ اس بات سے ہمسایہ ملک بھارت پہلے ہی پریشان رہتا ہے اور کیا کیجئے ان ماہرین اور تجزیہ کاروں کا جو آئے دن اپنے تجزیات سے اسے اور پریشان کر
دیتے ہیں۔ عسکری تاریخ اور عالمی امور کے ماہر جوزف مکالف نے ایک اور ایسا ہی تجزیہ پیش کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان صرف ایٹمی ہتھیاروں کی کوالٹی کے لحاظ سے ہی نمایاں مقام نہیں رکھتا بلکہ عنقریب ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے بھی دنیا میں تیسرے نمبر پر آجائے گا۔
جوزف مکالف نے ویب سائٹ Militry.comپر اپنے تازہ ترین مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان نے موجودہ رفتار سے ایٹمی ہتھیار بنانا جاری رکھے تو عنقریب یہ ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی طاقت ہوگا۔ اس ضمن میں انہوں نے کچھ تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خصوصاً 5 سے 10 کلوٹن کے چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری جنوبی ایشیاءکے خطے میں عسکری توازن کو تبدیل کرسکتی ہے۔ مکالف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بھارت اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی جبکہ دوسری جانب بھارت اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تناﺅ خطے میں عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے۔
مکالف اپنے تجزیے میںکہتے ہیں کہ ”پاکستان 1971ءسے ایٹمی میدان میں نمایاں پیش رفت کر رہا ہے اور پلوٹونیم اور افزودہ یورینیم پر مبنی ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد بڑھارہا ہے۔ پاکستان کے پاس پلوٹونیم پروڈکشن کے چار ری ایکٹر جبکہ پلوٹونیم پراسیسنگ کے تین پلانٹ ہے۔ پاکستان اعلیٰ ترین افزودہ یورینیم پیدا کررہا ہے
جبکہ اس کی افزودگی کے لئے گیس سنٹری فیوج استعمال کی جارہی ہے۔ سپیشل ڈیزائن کی یہ سنٹری فیوج مشینیں یورینیم ہیکسا فلورائیڈ گیس کو انتہائی تیز رفتار پر گھماتی ہیں جس کے نتیجے میں یورینیم 235 آئسوٹوپ کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے۔“
مکالف نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کا ڈیزائن اور ایٹمی ہتھیار کی تیاری القاعدہ، داعش، یا کسی بھی جہادی گروپ کی پہنچ سے باہر ہے لیکن اس بات کی غیرمصدقہ میڈیا اطلاعات موجو دہیں کہ 2014ءمیں داعش نے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لئے ایٹمی پروگرام سے ماضی میں وابستہ رہنے والی ایک شخصیت سے رابطہ کیا۔“
مختلف انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے مکالف نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت 140 سے 150 ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ ان کے اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس تین ہزار سے چار ہزار کلوگرام ہتھیار بنانے کے لئے تیار HEUاور 200 سے 300 کلوگرام پلوٹونیم موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ذخیرے سے 200 سے 250 ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں۔ اگر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنائے جائیں تو ان کی تعداد او ربھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ مکالف کے مطابق پاکستان افزودہ یورینیم اور پلوٹونیم اتنی مقدار میں پید اکررہا ہے کہ ہر سال 10 سے 20 ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔