عزت اورجیل جانے کاخوف ،پاکستان ائیرفورس کے کیپٹن نے خودکشی کرلی کیپٹن نے ایسا کیا کام کیا تھا ؟ لاش کہاں سے اور کس حالت میں ملی؟

پاک فضائیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ پائلٹ گروپ کیپٹن رضوان عتیق کی پراسرار موت دراصل ‘خودکشی’ تھی۔واضح رہے کہ گروپ کیپٹن رضوان عتیق کی بیوہ تنزیلا خان نے پٹیشن دائر کی تھی، جس پر پاک فضائیہ کے ڈائریکٹر لیگل سروس سہیل احمد نے بتایا کہ رضوان عتیق نے مبینہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کے نتائج سے خوفزدہ ہو کر خود کشی کی۔عدالت کو فراہم کردہ تفصیلات میں بتایا گیا کہ ‘رضوان عتیق دوران ملازمت غبن، خلاف ضابطہ عمل اور ٹھیکیداروں سے سروس مفاد کے منافی کام میں ملوث تھا جس کے تنیجے میں اسلام آباد ائیر ہیڈکوارٹر نے 5

جولائی 2017 کو رضوان عتیق کے خلاف تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیا‘۔عدالت کو بتایا گیا کہ ‘مرحوم افسر کو حراست میں نہیں لیا گیا بلکہ اسلام آباد کے آفیسر میس کے وی آئی پی کمرے میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں تحقیقاتی بورڈ کو تفتیش کرنی تھی’۔پاک فضائیہ کے مراسلے میں درج تفصیلات کے مطابق ‘مرحوم افسر نے خود کشی کی کیونکہ انہیں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر سخت ندامت تھی’۔عدالت کو بتایا گیا کہ ‘گروپ کیپٹن رضوان نے اسلام آباد آفیسر میس میں 10 جولائی 2017 کو بیڈ شیٹ کا استعمال کرتے ہوئے کھڑی کی جالی سے پھندا لگا کر خود کشی کی’۔کیپٹن

رضوان کو فوری طور پر پی اے ایف ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں باقاعدہ ‘مردہ ’ قرار دیا اور پھر ان کی لاش کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا۔عدالت میں پاک فضائیہ کے وکیل نے بتایا کہ

ہسپتال کے ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ افسر نے خود کشی کی اور مرحوم کی اہلیہ کی جانب سے پٹیشن دراصل پاک فضائیہ کو بدنام کرنا ہے۔دوسری جانب گروپ کیپٹن رضوان کی اہلیہ تنزیلا خان نے پٹیشن کے ہمراہ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹی لاہور کی رپورٹ بھی جمع کرائی، جس میں کہا گیا کہ مرحوم افسر کے جسم پر 8 زخموں کے نشان تھے جو کسی بھی عام شخص کے لیے جان لیوا ہو

سکتے ہیں۔پٹیشن میں سیکریٹری دفاع، چیف آف ائیر اسٹاف، ڈپٹی چیف آف ائیر اسٹاف اور پاک فضائیہ انٹلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل کو فریق بنایا گیا ہے۔تنزیلا خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے ان کے شوہر کی ہلاکت میں ملوث عناصر کی نشاندہی کی جائے جو گزشتہ برس اگست میں ہلاک ہوئے۔درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی کہ وہ ڈپٹی چیف آف ائیر اسٹاف کو مرحوم کا ذاتی سامان لواحقین کے حوالے کرنے کا حکم صادر کریں۔اسلام آباد کے جسٹس عامر فاروق نے پٹیشن کی سماعت کے

دوران پولیس سے دریافت کیا کہ اس معاملے کی ایف آئی آر کیوں نہیں درج کی گئی۔بعدازاں عدالت نے سمن جاری کرتے ہوئے متعلقہ پولیس افسر کو 11 اپریل کو طلب کرلیا۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.