پاکستان کی وہ جگہ جہاں لڑکے مردوں سے محفوظ نہیں
بعض علاقوں کے متعلق آپ یہ تو سنتے رہتے ہوں گے کہ وہاں خواتین زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور مردوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں لیکن آپ یہ سن کر دنگ رہ جائیں گے کہ پاکستان میں ایک گاﺅں ایسا ہے جہاں لڑکے مردوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ ڈیلی ڈان کے مطابق یہ بلوچستان کے ضلع ہرنئی کا گاﺅں شاہراگ ہے جہاں 300سے 400کے قریب کوئلے کی کانیں ہیں اور ان کانوں پر 30ہزار سے زائد مرد کام کرتے ہیں۔ ان کانوں پر لڑکے بھی کام کرتے ہیں۔
اس گاﺅں سمیت گردونواح کے علاقے میں زیادہ آبادی پشتونوں کی ہے تاہم کچھ تعداد میں مری قبیلے کے بلوچ بھی رہتے ہیں۔ شاہراگ میں بھی پشتونوں ہی کی اکثریت ہے۔ کانوں پر کام کرنے والے مردوں میں سے 80فیصد پنجاب، خیبرپختونخواسے ہیں جبکہ 20فیصد مقامی ہیں۔ کچھ افغانستان کے شہری بھی یہاں کام کرتے ہیں۔ یہ علاقہ بلوچستان سے پوری طرح کٹا ہوا ہے چنانچہ ایک طرف اس علاقے کے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ باقی ملک میں کیا ہو رہا ہے اور دوسری طرف اس علاقے کے اس بھیانک پہلو سے باہر کے لوگ معلوم نہیں کہ یہاں لڑکوں کو بدفعلی کا نشانہ بنائے جانے کی شرح شرمناک حد تک زیادہ ہے۔
ایسے ہی ایک13سالہ کلیم نامی لڑکے نے ڈیلی ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ”جب میںیہاں پہنچا تو مجھے ایسا لگا کہ یہاں کام کرنے والے ہر مرد کو میرا ہی انتظار تھا۔ میرے پہنچتے ہی علاقے کی تمام کانوں میں خبر پہنچ گئی کہ فلاں کان میں ایک نیا لڑکا آیا ہے اور ان کانوں کے مرد بھی مجھے دیکھنے کے لیے آنے لگے۔یہ میرے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی نیا لڑکا آتا ہے، یہی کچھ ہوتا ہے۔“ رپورٹ کے مطابق یہ صرف کلیم ہی نہیں بلکہ کانوں پر کام کرنے والے مرد خیبرپختونخوا اور افغانستان سے لڑکے منگواتے ہیں اور انہیں باورچی یا دیگر ملازمتوں پر رکھ لیتے ہیں لیکن انہیں یہاں لائے جانے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے ان کے ساتھ بدفعلی کرنا۔“