پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا آغاز کس طرح ہوا؟
پاکستانی لڑکیوں کو 18 لاکھ سے 35 لاکھ روپے کے عوض چین سمگل کرنے کا گینگ مبینہ طور پر اس شخص نے قائم کیا جو جھنگ کے علاقے حویلی بہادر شاہ میں توانائی کے ایک منصوبے کے سلسلے میں پاکستان آیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) فیصل آباد، لاہور، اور راولپنڈی میں متعدد چھاپے مار کر گینگ کے کچھ کارندوں کو گرفتار کرچکی ہے جس میں چینی شہری اور ان کے پاکستانی سہولت کار شامل ہیں۔ اس ضمن میں ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کی خفیہ رپورٹ کے مطابق کچھ چینی شہریوں نے ایڈن گارڈن کے علاقے میں 30 ہزار روپے ماہانہ کرایے پر مکان حاصل کیا اور ایک تعمیراتی منصوبے سے وابستگی ظاہر کر کے وہاں رہنے لگے جو 9 ماہ قبل مکمل ہوا تھا، حتیٰ کہ انہیں مقامی پولیس کی جانب سے سیکیورٹی بھی فراہم کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے کی تکمیل کے بعد چینیوں نے شن شن شیانہے کی سربراہی میں ایک گروہ تشکیل دیا جو غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی پاکستانی مسیحی لڑکیوں کی چینی شہریوں سے شادی کروا کر انہیں اسمگل کرتے تھے۔
شن شیانہے نے اگست 2018 کو اپنے برادر نسبتی وینگ پینگ کو پاکستان بلوایا جو خود بھی گینگ کا سرگرم کارکن تھا، شن شیانہے اس کی اہلیہ اور اس کے والد چین میں ایک شادی دفتر چلاتے تھے جہاں سے وہ چینی لڑکوں کی تصاویر ’وی چیٹ‘ ایپلیکیشن کے ذریعے مقامی ایجنٹس کو بھجواتے تھے۔
جس کے بعد ایجنٹس وہ تصاویر مسیحی گھرانوں کو دکھاکر انہیں شادی کرنے کے لیے راضی کرتے تھے اور گینگ چینی لڑکوں سے فی شادی 18 سے 35 لاکھ روپے وصول کرتے تھے۔ گینگ کا سرغنہ شن شیانہے اور وینگ پینگ مقامی ایجنٹس کے ذریعے مسیحی لڑکیوں کا سراغ لگاتے تھے جنہیں شادی طے ہوجانے کی صورت میں 50 سے 70 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔ جس کے بعد یہ دونوں غریب علاقوں کے گرجا گھروں میں جاتے تھے اور اس دوران مسیحی خاندانوں کو اس بات کی یقین دہانی کرواتے کہ چینی لڑکے بھی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں بدھ مت سے نہیں۔
رپورٹ کے مطابق شادی کے تمام اخراجات دلہا ادا کرتا تھا اور اپنے سسرالیوں کو بھی مالی معاونت فراہم کرتا تھا، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چینی دلہے فیصل آباد آکر ایڈن گارڈن والے گھر میں رہتے تھے اور جب تک اپنی ’بیویوں‘ کے ہمراہ واپس چین نہیں چلے جاتے اس وقت تک شن شیانہے کو ایک ہزار سے 5 ہزار روپے روزانہ کرایا دیتے تھے۔
لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا یہ کاروبار صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں انسانی حقوق کی تنظیم (ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ میانمار سے ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسا دے کر چین لایا گیا جہاں انہیں نہ صرف دلہن کے طور پر چینی خاندانوں کو فروخت کردیا گیا بلکہ کئی سالوں تک جنسی غلام بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق جو فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں ان میں زیادہ تر کو اپنے بچے چھوڑنے پڑے، صحافیوں نے کمبوڈیا، لاؤس، شمالی کوریا اور ویت نام سے بھی دلہنوں کی اس قسم کی اسمگلنگ کی اطلاعات دی ہیں۔
26 اپریل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایچ آر ڈبلیو نے پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کو چین میں جنسی غلام بنائے جانے کے واقعات میں اضافے پر چین اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ دلہنوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ چند روز قبل پیپلز کالونی کے ڈی گراؤنڈ سے کچھ چینی شہریوں کو اور ان کے معاونین کو ایک شادی کی تقریب سے گرفتار کیا گیا، جن سے تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ گینگ کے مقامی افراد سے مربوط روابط تھے۔
ذرائع کے مطابق مقامی سہولت کار چینی لڑکوں کو امیر کبیر ظاہر کر کے غریب گھرانوں کو ان کی بیٹیوں کی شادی چینی شہریوں سے کرنے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مزید ایجنٹوں کو آئندہ آنے والے دنوں میں گرفتار کیے جانے کی امید ہے۔