پردے اور داڑھی کی آڑ میں جنسی خواہشات کی تکمیل اور تعلیمی پراجیکٹس مکمل کرنے کا بہانہ بنا کر لڑکیوں کا غیر مردوں کے ساتھے گلچھڑے اڑانا۔۔۔۔۔نامور خاتون کالم نگار نے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی اصل اور بھیانک تصویر قوم کے سامنے رکھ دی

کئی جامعات ایسی ہیں جن کے مالکان نے کالج تک کا منہ نہیں دیکھا مگر وہ اپنے دستخط سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بانٹ رہے ہیں۔کئ پروفیسر بطور سپر وائزر سٹوڈنٹس سے لاکھوں روپے بٹور کر پی ایج ڈی کے تھیسز لکھ کر دیتے ہیں۔اپنی بیویوں اور فرینڈز کو گھر بیٹھے ایم اے ایم فل پی ایچ ڈی کرا دیتے ہیں۔

نامور خاتون کالم نگار طیبہ ضیاء چیمہ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔پچھلے 15سال سے جعلی اعلی تعلیم کے کلچر کو پاکستان میں نہ صرف پروموٹ کیا جاتا ہے بلکہ سپورٹ بھی کیا جاتا ہے جس کی بدولت اعلی تعلیم کا معیار تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں تعلیم اور حصول علم کا ذریعہ نہیں رہیں۔جعلسازی اور ڈیٹنگ پوائنٹ بنتی جارہی ہیں ۔ آج کے دور میں زیادہ تر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے طلبا کو ان کی محنت کے عوض نہیں ملتے بلکہ ان کے اندر جعلی مواد ہوتا ہے اور وہ خریدے اور نقل کیے جاتے ہیں۔

پاکستانی طلبا اب کاپی پیسٹ پر بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھتے اور ریڈی میڈ نقلی تھیسز خرید لیتے ہیں۔ کرپٹ پروفیسر مافیا طلبا کو بغیر محنت کیے اعلی تعلیم کی ڈگری حاصل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ آج کے پی ایچ ڈی اور ایم فل مقالے حقیقی ریسرچ پر مبنی ہونے کی بجائے فراڈ ذہنیت کے عکاس ہیں اور یہی مافیا ملک میں جعلی تعلیمی ڈگریوں کو پروموٹ کرتے ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں ایسے کرپٹ افسران سے بھری پڑی ہیں۔ یونیورسٹیوں کا ایک اور بڑا مسئلہ مختلف کیمپسز میں جنسی استحصال کا ہے۔ طالبہ کا سپر وائزر مرد ہے

تو یقینا مقررہ وقت میں اچھے نمبروں سے ڈگری مکمل کر ادے گا اور اس کے عوض مالی و جنسی ہوس پوری کرتا ہے۔ہر ڈگری کےلیے الگ الگ ریٹس مقرر ہیں۔ نقل پر مبنی ریسرچ کی رسم پاکستانی یونیورسٹیوں میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ فیکلٹی ممبر، ریسرچ سپروائزر، ڈیپارٹمنٹل چئیر پرسن، ڈین اور وائس چانسلر ان بے قاعدگیوں اور جعلی ریسرچ کلچر اور جعلی ڈگریوں کے اجرا کے مجموعی حیثیت سے ذمہ دار ہیں۔صرف طلبا کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا یا جا سکتا۔دوسرا سنگین جرم سٹوڈنٹس میں بڑھتی ہوئ بے راہ روی ہے ۔ھمارے والدین

مخلوط نظام تعلیم کے خلاف تھے ۔یونیورسٹیوں میں بیٹیوں کو بھیجنا معیوب سمجھتے تھے ۔ وومن کالج سے بی اے کرتے ہی بیٹیوں کی شادی کر دیتے کہ جائو اب مزید تعلیم کا شوق شوہر کے گھر جا کر پورا کرو ۔ایسے خاندان دقیانوسی یا بیک ورڈ کہلائے جاتے ہیں ۔لیکن ایسے بیک ورڈ خاندان اپنی لڑکیوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے۔دقیانوسی سوچ کے سبب اپنی لڑکیوں کو مردوں کی خباثت بچا نے کی کوشش کرتے تھے ۔ بیک ورڈ یا دقیانوسی سوچ کے حامل والدین اپنی بیٹیوں کی عصمت کی حفاظت کے لئے بے حد محتاط تھے ۔ محبت یا پسند کی شادی کو شرمناک فعل سمجھتے تھے ۔

اسے بے شرمی خیال کرتے تھے اور اس بے شرم فعل سے بچانے کے لئے لڑکیوں کو زیادہ تعلیم نہیں دلاتے تھے اور نہ کو ایجوکیشن میں بھیجتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ پاکستان بدل گیا۔بیک ورڈ طبقہ بھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی لڑکیوں کو یونیورسٹیوں میں بھیج رہے ہیں ۔ بلکہ شام کو نجی ٹیوشن سینٹروں میں بھی جانے سے نہیں روک پاتے ۔ کچھ تیزی سے بدلتا ہوا ماحول اور کچھ اولاد کی ضد اور ہٹ دھرمی نے والدین کو بے بس کر دیا ہے ۔بیٹیوں کو پردہ نقاب پہنا کر بے فکر نہ ہو جایئں ۔ ہوس نفس کے جذبات پردے اور داڑھی میں بھی کام دکھا جاتے ہیں ۔بلکہ اکثر پردہ نقاب برائ کو چھپانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ الا ما شا اللہ حافظ قرآن نقاب اوڑھنے والی طالبات اور داڑھی نماز روزے والے مرد بھی چکر چلاتے ہیں ۔ تعلیمی جعلسازی کرپشن اور بے راہ روی جیسے ایشو ز نے پاکستانی درسگاہوں پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔بدلتے زمانے سے خوفزدہ والدین وقت کے ساتھ چلنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ آج وہ دور ہے جس میں خواتین کی تعلیم اس کی ضرورت بنا دی گئ ہے ۔

ملازم پیشہ لڑکیوں کو رشتے جلدی مل جاتے ہیں یا طلاق کی صورت میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہیں وغیرہ ۔ آج لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ پڑھنا یا ملازمت کو معیوب خیال نہیں کیا جاتا لیکن اس کے ساتھ ایک اور بڑی خباثت نے جنم لے لیا ہے جس کے سامنے والدین معذور نظر آتے ہیں اور وہ نوجوان نسل کا بنا نکاح تعلق قائم کرنا ہے۔ والدین سے تعلیمی پراجیکٹ جیسے من گھڑت جواز بنا کر اپنے کلاس فیلولڑکوں اور مرد اساتذہ کے ساتھ شہر سے باہر بھی گھومنے پھرنے چلی جاتی ہیں ۔ والدین کو شبہ بھی گزرے تو کوئ گواہی یا ثبوت ہاتھ لگنے نہیں دیتے۔ایسی مکار اولاد کے لئے مناسب یہی ہے کہ جہاں پسند ہو شادی کر دی جائے ۔ مرد استاد بھی اکثر دوسری تیسری خفیہ شادیاں اپنی سٹوڈنٹس سے ہی کرتے ہیں جبکہ بے شمار تعلقات بنا نکاح چل رہے ہیں ۔مرد اساتذہ کی عمر اور ان کے مقام کا احترام کرتے ہوئے اکثر والدین اپنی بیٹیوں کے معاملہ میں ان پر اعتماد کر لیتے ہیں جبکہ یہ سراسر ظلم ہے ۔ لڑکوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ۔ بیٹوں کے معاملہ میں بھی خواتین اساتذہ پر بھروسہ نہ کیا جائے ۔ والدین ہوش کے ناخن لیں ۔ خدارا آنکھیں کھولیں اور دیکھیں اس نام نہاد مسلم معاشرہ کو گمراہی ناگ کی مانند ڈس رہی ہے ۔(ش س م)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.