تحریک انصاف کے 100 دن : گزشتہ 9 دنوں میں کیا ہوا اور آئیندہ 90 دنوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے ؟ نامور صحافی نے شاندار پیشگوئی کر دی

چاروں صوبوں اور وفاق میں نئی حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ وفاق سمیت خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تحریک انصاف نے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں۔ بلوچستان میں قائم ہونے والی حکومت میں بھی پی ٹی آئی کا اشتراک شامل ہے۔ جبکہ واحد صوبہ سندھ ہے،
نامور کالم نگار سعد اختر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جہاں پیپلز پارٹی اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ تحریک انصاف کو وفاق میں عنانِ اقتدار سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے لیکن عمران خان اور ان کی ٹیم پر کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید شروع ہوگئی ہے۔ تنقید کرنا اپوزیشن کا حق ہوتا ہے لیکن اس ’’حق‘‘میں اب کئی تجزیہ کار بھی شامل ہوگئے ہیں۔ ان میں ایسے تجزیہ کار بھی شامل ہیں جو عمران خان اور تحریک انصاف کے’’ حق‘‘ میں نہایت تسلسل سے بولتے رہے ہیں۔ کئی نجی ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام بھی ہو

رہے ہیں جس میں تحریک انصاف کے لیے کوئی ’’معافی‘‘ نہیں۔ یہ سب کچھ کسی پالیسی کے تحت ہو رہا ہے یا اس کے پسِ پردہ کچھ اور عوامل کارفرما ہیں۔ اس سے ضرور پردہ اٹھنا چاہیے کیونکہ نئی حکومت جس منشور، پروگرام اور جذبے کے تحت برسرِاقتدار آئی ہے اسے اتنا موقع تو ضرور ملنا چاہیے کہ وہ اپنے منشور پر عملدرآمد کا آغاز کر سکے۔ پاکستان میں مسائل بہت ہیں، بلکہ ان کا انبار لگا ہوا ہے۔ ان مسائل سے نبردآزما ہونا یا ان مسائل سے نپٹنا کوئی آسان کام یا سہل ہدف نہیں۔ معیشت بیٹھی ہوئی ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی حالت زبوںحالی کے قریب فارن افیئرز کے معاملات بھی تسلی بخش نہیں۔ ہمسایہ ممالک سے ہمارے تعلقات میں جو رخنہ ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ عالمی سطح پر سیاست اور منافقت کے جو بادل منڈلا رہے ہیں ان کو ’’فیس‘‘ کرنے کے لیے وقت اور بڑا حوصلہ چاہیے۔ عمران خان نے بحیثیت چیئرمین تحریک انصاف پاکستان کے 22 کروڑ عوام سے بڑے وعدے کئے ہیں۔ ان

میں سے کئی وعدے انکے منشور کا حصہ ہیں اس لیے لوگوں کی توقعات بھی عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف سے بہت زیادہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار اور عام لوگ تحریک انصاف کے منشور میں کئے گئے وعدوں پر آناً فاناً عمل درآمد چاہتے ہیں جو شاید اتنی جلدی ممکن نہیں۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اپنی صوبائی حکومت کے توسط سے گزشتہ پانچ سالوں میں جن اصلاحات کے ذریعے اپنے صوبائی محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنایا اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن ان ’’اصلاحات‘‘ کو نہیں مانتی اور ہمیشہ پی ٹی آئی پر تنقید کرتی نظرآئی ہے۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر KPK میں پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی سراہے جانے کے قابل نہ ہوتی اور صوبے کے لوگ اپنے اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوتے
تو اس صوبے میں پی ٹی آئی ہرگز دوبارہ کامیاب نہ ہوتی۔ 2018 ء کے الیکشن میں پہلے سے بھی زیادہ اکثریت لے کر KPK میں پی ٹی

آئی کا ایک بار پھر کامیاب ہونا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی نے کے پی کے میں کچھ کیا ہے، ورنہ اس صوبے کی تاریخ گواہ ہے کہ جو پارٹی اس صوبے میں اقتدار میں آتی ہے اگلی بار صوبے کا اقتدار اس سے چھن جاتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا، پی ٹی آئی کو KPK میں دوبارہ اقتدار ملا ہے۔KPK میں پی ٹی آئی کی مثالی کارکردگی نہ ہوتی تو شاید اسے ملک بھر میں اس قدر پذیرائی حاصل نہ ہوتی۔ اگرچہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں پی ٹی آئی کی اس کامیابی کو ’’خلائی مخلوق‘‘ کی پشت پناہی سے منسوب کرتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے ساتھ ملک بھر کے پڑھے لکھے لوگوں کا ایک سیلاب تھا جنہوں نے ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر عمران خان اور ان کی جماعت کو ووٹ دیا۔اب ’’تبدیلی‘‘ ہی کے نام پر لوگ چاہتے ہیں کہ سب کچھ پل بھر میں بدل جائے۔ معیشت بھی سرپٹ دوڑنے لگے اور تمام اداروں کی کارکردگی ایسی بن جائے

کہ لوگ اس کی مثالیں دینے لگیں۔ نجی ٹی وی چینلز پر آنے والے تجزیہ کاروں کو بھی ہاتھ ’’ہولا‘‘ رکھناچاہیے۔ ابھی پی ٹی آئی کو عنانِ اقتدار میں آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں صرف 9 دن ، ابھی 90 دن اور گزرنے دیں، پھر ضرور بات کریں۔ بات کرنی بھی چاہیے کہ بات نہیں کریں گے تو کسی کی کارکردگی کا کیسے پتہ چلے گا۔ پی ٹی آئی کو وقت دینا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ماضی کی حکومتوں کے برعکس صرف کام کریں۔ کام، کام اور کام۔ ورنہ لوگوں کا اس جماعت سے اعتماد اٹھ جائے گا۔عمران خان ، آپ کے قریبی ساتھی شیخ رشید احمد کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستانی قوم کی یادداشت انتہائی کمزور ہے بلکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے، سوشل میڈیا نے حالات کو یکسر بدل دیا ہے اگر آپ کی حکومت نے اچھے کام کئے تو 2023ء میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ عمران خان صاحب سے ایک اور گزارش ہے کہ اب وہ پاکستان کو پی ٹی آئی کے سربراہ کے حیثیت سے نہیں ،بلکہ وزیراعظم پاکستان کی نظر سے دیکھیں۔(ش س م)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.