بڑا سیاسی تہلکہ : صف اول کے سیاستدان کی عمران خان سے ڈیل ۔۔۔۔۔ کپتان سے ہاتھ ملا کر اپنی سیاسی جماعت بھی تحریک انصاف میں ضم کر دی
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) اور عوامی تحریک میں سے کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی، ان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے سے پارٹی ڈسپلن برقرار رہتا ہے،
نامور سیاسی تجزیہ کار قدرت اللہ چوہدری اپنے ایک تبصرے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اگر بعض جماعتیں باہم اتحاد کر لیں تو ان کے کارکن اپنی اپنی جماعتوں کے نظم و ضبط کے ہی پابند رہتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں عمران خان کو مسلم لیگ (ق) کے ساتھ تو اتحاد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں، ابھی اس جماعت کے ایک ایم پی اے نے ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے، پارٹی کے معروف رہنما چودھری ظہیر الدین بھی تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ اتحاد عام طور پر اس مقصد کے لئے کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں باہم مقابلے کی بجائے حریف جماعت کے
امیدوار کو شکست دی جا سکے لیکن اگر کامیابی کی امید رکھنے والے امیدوار قاف لیگ چھوڑ کر ویسے ہی تحریک انصاف میں آ رہے ہیں تو اتحاد کی چنداں ضرورت ہی نہیں۔ جہاں تک عوامی تحریک کا تعلق ہے وہ سرے سے انتخابی جماعت ہی نہیں، نہ اس جماعت کے اندر معروف معنوں میں سیاسی کارکن موجود ہیں۔ اس جماعت میں تو مریدین ہیں جنہیں جو بھی حکم ملتا ہے وہ کسی حیل و حجت کے بغیر اسے بجا لاتے ہیں، اگر انہیں کہا جائے کہ دھرنے کے لئے اسلام آباد پہنچ جاؤ تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں،
چار دن بعد انہیں دھرنا اٹھانے کی نوید سنا دی جاتی ہے تو وہ اس حکم کی تعمیل بھی کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی قیادت کے اس حد تک مطیع اور فرمانبردار ہیں کہ وہ کسی وقت کوئی سوال نہیں کرتے۔ اب ایسے سیاسی کارکن تو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے جن میں سے ایک نے قصہ خوانی بازار میں وزیراعلیٰ مغربی پاکستان (آج کا پورا پاکستان) کا گریبان پکڑ کر پوچھا تھا کہ تم نے ہمارے لئے کیا کیا ہے، ڈاکٹر خان صاحب نے تحمل سے کہا پہلے میرا گریبان چھوڑو پھر جواب دیتا ہوں، اس کے بعد جواب یہ دیا کہ میں نے اپنی جماعت کے کارکنوں میں اتنی جرأت پیدا کر دی ہے کہ وہ
بھرے بازار میں وزیراعلیٰ کا گریبان پکڑ سکتے ہیں۔ مریدین اور سیاسی کارکنوں میں یہی فرق ہوتا ہے، سیاسی کارکن اپنے قائد کا گریبان پکڑنے کی گستاخی کا مرتکب بھی ہو سکتا ہے، مرید حکم کی بجا آوری کے سوا کوئی دوسرا تصور نہیں رکھتا، اس لئے عوامی تحریک نے اب تک جتنے بھی الیکشن لڑے ہیں ان میں کامیابی صرف ایک بار ڈاکٹر طاہر القادری کے حصے میں آئی تھی، وہ یہ نشست بھی چند ماہ بعد چھوڑ گئے تھے۔ اب ان سے یہ سوال تو کوئی سیاسی کارکن ہی پوچھے تو پوچھے کہ حضور
اب تک آپ نے الیکشن لڑ کے کیا کمائی کی ہے جو اگلا الیکشن بھی لڑنا چاہتے ہیں، لیکن پارٹی کا اعلان یہی ہے کہ وہ پوری قوت سے انتخاب لڑے گی تاہم عمران خان نے اس کے ساتھ اتحاد سے انکار کر دیا ہے۔ سیاسی پیش گوئیوں کی بہت سی دکانوں کا پکوان تو پھیکا ہی ثابت ہوا ہے، ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے وطن روانگی سے پہلے فرمایا تھا کہ یہ حکومت مارچ کا سورج نہیں دیکھ سکے گی، لیکن حکومت اپنی جگہ موجود ہے۔ شیخ رشید احمد پانچ سال تک ایسی ہی پیش گوئیاں کرتے کرتے تھک ہار گئے ہیں اور اگلا انتخاب سر پر آن پہنچا ہے تو انہوں نے منہ کا مزہ بدلنے کے
لئے پیش گوئیوں کا انداز بھی بدل دیا ہے، اب جبکہ انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں، عمران خان نے دو روز تک لاہور میں رکن سازی کی مہم چلائی ہے۔ سیاسی پرندے نئے ٹھکانوں کی طرف محو پرواز ہیں، نہ صرف افراد تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں بلکہ پورے پورے خاندان اور پوری پوری سیاسی جماعتیں باجماعت شمولیت کا شرف حاصل کر رہی ہیں۔ ریاض فتیانہ نے اگرچہ ایک عدد سیاسی جماعت بنائی ہوئی ہے لیکن شاید انہیں اس جماعت کا مستقبل روشن نظر نہیں آیا
اس لئے وہ اپنی جماعت سمیت تحریک انصاف کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ شنید ہے کہ انہوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے لئے قومی اسمبلی کے ٹکٹ مانگے ہیں، دونوں پہلے بھی رکن رہ چکے ہیں، اس لئے انہوں نے اپنا ’’استحقاق‘‘ چیئرمین کے سامنے پیش کیا۔ مزید برآں وہ اپنے صاحبزادے کے لئے بھی صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ چاہتے ہیں۔ اب اگر اسمبلی کی تین نشستیں ایک ہی گھر کو مل جائیں گی اور تحریک انصاف ایسی یقین دہانی بھی کرا دے گی تو پھر اپنی سیاسی جماعت بنائے رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ ایسی جماعتیں بھی تو ہیں جو ایک سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر پاتیں۔
اسی طرح آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر ڈاکٹر امجد نے الیکشن کمیشن میں ایک نئی سیاسی جماعت رجسٹر کرائی ہے جس میں سنا ہے دوسری چوبیس جماعتیں بھی مدغم ہو گئی ہیں، یہ کون سی جماعتیں ہیں اور ان کا حدود اربعہ کیا ہے، یہ تو معلوم نہیں ہو سکا لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وہی جماعتیں ہوں گی جنہوں نے چند ماہ قبل جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا تھا، اب شاید انہوں نے اپنی حکمت عملی بدل لی ہے۔ نئی سیاسی جماعت کی سربراہی ڈاکٹر امجد کی اہلیہ کے حصے میں آئی ہے۔ یہ شاید گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج ہونے والا ریکارڈ ہے کہ
میاں، بیوی دو الگ الگ جماعتوں کے سربراہ ہوں اور دو جماعتیں ایک ہی گھر کی چار دیواری میں سمٹ آئی ہوں۔پاکستان کی سیاست میں سب کچھ ممکن ہے اگر راتوں رات ایک پوری پارٹی اپنا نام بدل کر نیا رکھ سکتی ہے یا ایک ہی گھر میں رہنے والے میاں بیوی دونوں وزیر بن سکتے ہیں تو الگ الگ سیاسی جماعتوں کی سربراہی کیا مشکل ہے۔ یہ کرشمہ بھی بلوچستان میں ہوا تھا جب اسمبلی کے تمام ارکان کو مشیر یا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ اس اصولی فیصلے سے جو بھی مستفید ہو سکتا تھا اس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کوتاہی ہی نہیں برتی۔(ش س م)