آسیہ بی بی کیس، پنجاب پولیس نے مظاہرین کے خلاف آپریشن سے ہی انکار کردیا کیونکہ ۔ ۔ ۔ مقامی اخبار کا ایسا دعویٰ کہ پورا ملک دم بخود رہ گیا
ایک مقامی اخبار کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن میں صرف پولیس فورس کو ہی قربانی کا بکرا بنائے جانے پر پولیس افسران و اہلکاروں کی بڑی تعداد نے احتجاج کرنے والے مظاہرین سے آہنی ہاتھوں نمٹنے سے انکار کر دیا اور صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے نئے تعینات ہونے والے سی سی پی او لاہور کو چارج لینے کے دو روز بعد ہی عارضی طور پر کام سے روکنے اور ڈی آئی جی، وی وی آئی پی سیکیورٹی سپیشل برانچ کی تبدیلی اسی ردعمل کی کڑی ہے جبکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے لئے فوج اور رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کی حکمت عملی طے کی گئی ہے۔
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق حکومت کی جانب سے آسیہ بی بی کیس کے عدالتی فیصلے کے خلاف جگہ جگہ احتجاج کرنے والے مظاہرین کو قانون کو ہاتھ میں لینے سے روکنے، دفعہ 144 پر عملدرآمد کرانے اورکسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پولیس حکام کو احکامات جاری کرتے ہوئے فری ہینڈ دیا گیا ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں صرف پولیس افسران و اہلکاروں کو نشانہ بنائے جانے پر محکمہ پولیس میں کھل کر گروپ بازی سامنے آگئی ہے جس پر حکومتی حکام اور ان کی اپنی پولیس لابی سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے گزشتہ روز دو دن ہی قبل چارج لینے اور پولیس افسران سے کرائم میٹنگ کرنے والے سی سی پی او ذوالفقار حمید کو 15 دسمبر 2018 تک کام سے روک کر مینجمنٹ کورس مکمل کرنے اور پرانے سی سی پی او بی اے ناصر کو ہی ڈیڑھ ماہ کے لئے چارج دے دیا ہے جبکہ ڈی آئی جی، وی وی آئی پی سکیورٹی سپیشل برانچ پنجاب لاہور عمران محمود کو بھی تبدیل کر کے ان کی جگہ سہیل حبیب تاجک کو ڈی آئی جی، وی وی آئی پی سکیورٹی سپیشل برانچ پنجاب لاہور لگا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں حکومت نے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے لئے فوج اور رینجرز کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔