رقم کے بدلے 500 افراد کو قتل کرنے والا قاتل
دنیا کے خطرناک ترین اجرتی قاتلوں میں سے ایک جولیو سانٹانا بھی ہیں جو اب تک 500 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ہاتھوں سے مارے جانے والے افراد کی تعداد کی گنتی 492 پر روک دی ہے۔ سانٹانا نے اب تک سیاستدانوں، بااثر لوگوں، سونے کے کانوں کے مالک و تاجراور ایک دوسرے سے پریشان شوہروں اور بیویوں کو قتل کیا ہے۔ یہاں تک کے ان کی غارت گری کی داستان کاروباری چپقلش، فٹ بال، محبت و عداوت اور دیگر انسانی تعلقات پربھی محیط ہے۔
اپنے کیریئر کا پہلا قتل انہوں نے 1971 میں اس وقت کیا جب وہ صرف 17 سال کے تھے۔ اب ان کی زندگی پر ایک صحافی نے کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ’دی نیم آف ڈیتھ‘ رکھا گیا ہے جس پر اب فلم بھی بنائی جارہی ہے۔
برازیل سے تعلق رکھنے والے جولیو کی عمر اس وقت 64 برس ہے اور اب انہوں نے اپنی بیوی کے کہنے پر یہ کام چھوڑ دیا ہے۔ وہ ہرقتل سے پہلے نوٹ لکھا کرتے تھے جسے اب کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ نیویارک پوسٹ سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کی بدولت زندگی میں ہمت پائی ہے تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ جو بھی ان سے سرزد ہوا ہے وہ انتہائی غلط اور مکروہ فعل تھا۔
جولیو ایمیزون کے جنگلات میں رہ رہے تھے کہ ان کے چچا نے ایک مچھیرے کو قتل کرنے کو کہا جس نے ایک 13 سالہ بچی سے جنسی زیادتی کی تھی۔ پہلے تو وہ کچھ ہچکچائے تاہم 17 سال کی عمر میں انہوں نے پہلا قتل کرڈالا۔ اس کے بعد قتل کا سلسلہ چل نکلا اور یہ گنتی سینکڑوں تک جاپہنچی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1967 سے 1974 تک انہوں ںے برازیلی حکومت کی ایما پر کئی لوگوں کو قتل کیا اور برازیل میں کمیونسٹ چھاپہ ماروں کی اہم شخصیات کو نشانہ بنایا اور اس دوران انہوں نے غیرمعمولی رقم کمائی۔
جولیو نے انٹرویو کے باوجود اپنی تصویر شائع کرانے سے انکار کردیا اور انہوں نے ہمیشہ خود کو پردے میں رکھتے ہوئے ہی گھاتک کارروائیاں کی تھیں۔ تاہم 1987 میں وہ ایک مرتبہ گرفتار ہوئے لیکن جلد ہی رہا ہوگئے۔
2006 میں انہوں نے قتل کے پیشے کو خیرباد کہدیا کیونکہ ان کی بیوی اس سے سخت خائف تھی۔ جولیو کے مطابق ان کی بیوی نے تلخ یادوں اور سیاہ پیشے سے باہر نکالا ہے اور اب وہ ایک مطمئین زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن اب بھی انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں جس میں وہ ان مقتولین کو دیکھتے ہیں جنہیں وہ قتل کرچکے ہیں۔
ان کی زندگی پر کتاب ایک برازیلی صحافی نے لکھی ہے۔