”میں رات کو جنات کو قرآن مجید سنانے گیاتھا “ رسول خدا ﷺ نے جب یہ بات بتائی تو صحابہ ؓ نے سوال کیا کہ ……..

مخلوق جنات ایک حقیقت ہیں اور وہ بھی نبی کریم ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں ۔قرآن واحادیث میں ان جنات کا ذکر بھی موجود ہے جنہوں نے بعثت رسولﷺ کے وقت اللہ کے نبی ﷺ سے قرآن سنااور آپﷺ کے نبی ہونے کا اقرار کیا تھا۔ اس واقعہ کا سورہ جن اور سورہ احقاف میں ذکر موجود ہے ۔جبکہ مسلم اور بخاری شریف میں اس واقعہ کی تمام تفاسیر موجود ہیں ۔

جب سے رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے تھے ، جنات بھی پریشان نظر آتے تھے ۔ ایک صاحب ایام جاہلیت میں کاہن تھے ، بعد میں مسلمان ہوگئے تھے ۔ ان کا بیان ہے کہ ایک دن وہ بازار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک جنیہ آئی ، اس کے چہرے سے گھبراہٹ عیاں تھی۔ وہ کہنے لگی: ”کیا تم نے جنات کی حیرت اور مایوسی دیکھی ؟ کیا ان کی ندامت کے بعد ان کی ناامیدی دیکھی؟ اور کیا تم نے لوگوں کا اونٹ والوں اور چادر اوڑھنے والوں (اہل عرب ) کا تابع ہوجانے کا منظر دیکھا؟“

رسول اللہ ﷺ کے مبعوث ہوتے ہی جنات اور آسمان کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوگئی اور ان پر شدت سے چنگاریاں برسنے لگیں۔ ایک دن جنات اوپر سے واپس آنے کے بعد کہنے لگے ” یہ کیا ہوگیا ہے کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے اور اب ہم پر شدت سے چنگاریاں برسائی جاتی ہیں۔ “

ان میں سے ایک جن نے کہا : ” ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان جو رکاوٹ ہوگئی ہے (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ) ضرور کوئی نئی بات ظہور میں آئی ہے ۔ ‘ ‘ پس وہ چلے ۔ اور انہوں نے زمین کے مشارق و مغارب کا چکر لگایا ۔ ان سب کو اس بات کی کھوج لگی ہوئی تھی کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو ان کے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہوگئی ہے ؟ بالآخر جنات کی وہ جماعت جو سرزمین تہامہ کی طرف روانہ ہوئی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ گئی ۔ آپﷺ اس وقت مقام نخلہ میں تھے اور سوق عکاظ کی طرف جانے کا ارادہ تھا ۔ صبح کے وقت یہ جماعت

وہاں پہنچی اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب سمیت نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپﷺ کی قراءت کی آواز اُن کے کان میں آئی تو انہوں نے قرآن مجید کو بڑے غور سے سنا، پھر کہنے لگے ” یہی تو وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہوگئی ہے ۔ “ یہاں سے واپس وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور کہا ” اے ہماری قوم ! ہم نے قرآن سنا ، وہ بڑا عجیب ہے ۔ وہ ہدایت کا راستہ بتاتا ہے ۔ پس ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور اب ہم کسی کو اپنے رب کے ساتھ شریک نہ کریں گے ۔ ” اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی اطلاع اپنے رسول ﷺ کو دی۔ فرمایا:

(اے میرے رسول !) ” آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور پھر کہا : ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کا راستہ بتاتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے اور اب ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ ہمارے رب کی عظمت بہت عالی شان ہے ۔ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد ، ہمارے بعض بے وقوف اللہ کے بارے میں افترا پردازی کرتے تھے اور ہم یہ خیال کرتے تھے کہ انسان اور جن اللہ پر جھوٹ نہیں بولتے ۔ اور انسانوں میں سے بعض جنات کی پناہ پکڑتے تھے ۔ اس سے جنات کا غرور اور سرکشی اور زیادہ بڑھ جاتی تھی اور انسانوں کا بھی یہی اعتقاد تھاجیسا کہ (اے جنات ) تمہارا اعتقاد تھا کہ اللہ کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔ اور ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے مضبوط چوکیداروں اور سخت شعلوں سے بھرا ہوا

پایا اور ہم آسمان میں خبریں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننا چاہتا ہے تو وہ اپنے لیے تیز شعلے پاتا ہے ۔ معلوم نہیں کہ اہل زمین کے ساتھ برائے مقصود ہے یا بھلائی ۔ ہم میں سے بعض نیک ہیں اور بعض اور طرح کے ہیں ۔ ہمارے کئی طرح کے مذاہب ہیں اور ہم نے یقین کر لیا کہ زمین میں اللہ کو ہر گز نہیں ہراسکتے ، نہ بھاگ کر اسے تھکا سکتے ہیں۔ ہم نے ہدایت کی کتاب سنی ۔ ہم اس پر ایمان لائے (اور )جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے اسے نہ کسی نقصان کا خوف ہے اور نہ ظلم کا ۔ ہم میں بعض مسلم ہیں اور بعض نافرمان ، جو مسلم ہیں وہ سیدھے راستے پر چل رہے ہیں اور جو نافرمان ہیں وہ دوزخ کا ایندھن ہیں۔“

جنات ایک مرتبہ قرآن مجید سن کر چلے گئے ۔ دوسرے مرتبہ پھر آئے ۔ رسول ﷺ کو جنات کی آمد کی خبر ملی گئی ۔ اتنے میں جنات کی طرف سے ایک بلانے والا بھی آگیا۔ رات کا وقت تھا ، آپﷺ اس کے ساتھ چلے گئے ۔ صحابہؓ کو خبر نہ ہوئی ۔ وہ بہت پریشان ہوئے کہ آپﷺ کہاں چلے گئے ۔ رات بھر تلاش کرتے رہے ۔ صبح کے وقت آپﷺ غارحراءسے آتے ہوئے دکھائی دیے ۔ آپﷺ نے فرمایا” میں جنات کے پاس گیا تھا۔ انھیں قرآن سنایا “ صحابہ ؓ نے اس بارے آپ ﷺ سے دریافت فرمایاکہ وہ کہاں رہتے ہیں ۔پھر آپﷺ صحابہؓ کو بھی وہاں لے گئے اور انھیں جنات کے نقوش اقدام اور آگ جلانے کے مقامات دکھائے ۔ اس واقعہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات نازل فرمائیں۔ فرمایا ” اے میرے رسول !اور جب ہم نے کچھ جنات کو آپﷺ کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ قرآن سنیں ۔ وہ آئے اور کہنے لگے خاموش رہو۔ واپس جا کر انہوں نے اپنی قوم کو ڈرایا ۔ انہوں نے کہا اے قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی جو موسی ؑ کے بعد نازل ہوئی ہے وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق اور صراط مستقیم کی ہدایت کرتی ہے۔ اے قوم ! اللہ کی طرف بلانے والے کی بات قبول کرو اور ایمان لے آﺅ ۔ تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ عذاب سے بچ جاﺅ گے اور جو شخص دعوت الی اللہ کو قبول نہیں کرے گا، وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتا۔ اس کا کوئی حمایتی نہ ہوگا۔ ایسے لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔“(حوالہ۔ سیر ت رسولﷺ عبدالمالک مجاہد )

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.