’اس دن میں رات کو ٹیکسی پر بیٹھی، تھوڑی دور گئے تو ڈرائیور نے گانوں کی آواز اونچی کر دی اور اپنا ہاتھ۔۔۔‘ نوجوان پاکستانی لڑکی کے ساتھ پیش آنے والا ایسا واقعہ کہ لڑکیاں گھر سے باہر جانے سے ہی گھبرانے لگیں
آج کی دنیا میں خواتین کے لئے کام کاج کے لئے گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو چکا ہے۔ اب ہر کسی کے لئے کہاں ممکن ہے کہ اپنی سواری رکھے اور جن کے لئے ممکن ہے وہ بھی بسا اوقات پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسی استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ایسی صورت میں خواتین کو کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کا اندازہ انسانی حقوق کارکن عظمیٰ یعقوب کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے کیا جا سکتا ہے، جو انہوں نے ویب سائٹ ’ایکسپریس ٹربیون‘ پر اپنے بلاگ میں بیان کیا ہے۔
عظمیٰ یعقوب بتاتی ہیں کہ ’’میں ایک روز اپنی کولیگ کو ڈھوک کالاخان میں ڈراپ کرنے کے بعد واپس لوٹ رہی تھی اور اب میں ٹیکسی میں ڈرائیور کے ساتھ اکیلی تھی۔ تھوڑی دور جا کر ڈرائیور نے اچانک اونچی آواز میں گانے چلا دئیے اور شیشے کا رخ میری جانب کر دیا۔ میں نے اسے میوزک کی آواز کم کرنے کو کہا اور شیشے کا رخ بھی موڑنے کو کہا لیکن اس نے کوئی توجہ نا دی۔
پھر اس نے مزید بے حیائی کرتے ہوئے خود لذتی کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ باہر تاریکی تھی اور راستہ سنسان تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوئے تو یہاں کوئی میری مدد کرنے والا بھی نہیں ہو گا۔ میں مدد کے لئے دیکھ رہی تھی اور اسی دوران مجھے پولیس کی گاڑی نظر آ گئی۔ میں نے ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں بلایا تو انہوں نے ٹیکسی کو روک لیا۔ میں نے اپنے
ساتھ پیش آنے والا سارا ماجرا بیان کیا اور مدد کی اپیل کی۔ اب ٹیکسی ڈرائیور مسلسل معافیاں مانگ رہا تھا۔ میں نے پولیس سے درخواست کی کہ اسے ہرگز نا چھوڑا نا جائے اور اس کے خلاف باقاعدہ شکایت بھی درج کروائی۔ امید ہے کہ اس نے کچھ سبق ضرور سیکھا ہو گا۔‘‘