ظلم کی نحوست :روہنگیامیں بڑی تعداد میں لڑکیاں بن بیاہی مائیں کیسے بن گئیں ؟ پوری امت مسلمہ کو شرما دینے والی خبر آ گئی
سکیورٹی فورسز نے نو ماہ قبل روہنگیا خواتین اور لڑکیوں کو وسیع پیمانے پر مبینہ جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا تھا، جن کے نتیجے میں کئی خواتین اور لڑکیاں حاملہ ہو گئی تھیں، جو اب زچگی کے عمل سے گزرنے لگی ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ
بنگلہ دیش کے کوکس بازار میں امدادی کارکن ایسی روہنگیا خواتین اور لڑکیوں کو تلاش کر رہے ہیں، جو نو ماہ قبل میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے جنسی زیادتیوں کی وجہ سے حاملہ ہو گئی تھیں۔ یہ کیمپ حاملہ خواتین کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ قرار دیا جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ ’بدنامی اور شرم‘ کی وجہ سے ایسی خواتین چھپ رہی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی جان کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔میانمار کی مسلم اقلیتی کمیونٹی روہنگیا سے تعلق رکھنے والی مہاجر خاتون توسمینارہ نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ ایسی خواتین اور لڑکیوں کا پتہ چلا
رہی ہیں، جو نو ماہ قبل جنسی زیادتیوں کی وجہ سے حاملہ ہو گئی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ ایسی خواتین اور ان کے اہل خانہ کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ اگر وہ زچگی کے لیے مناسب طبی امداد حاصل کرتی ہیں تو ان کی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی جائے گی۔میانمار میں گزشتہ برس اگست اور ستمبر کے مہینوں میں ملکی سکیورٹی فورسز نے راکھین میں روہنگیا مسلم کمیونٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے کم ازکم سات لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی طرف مہاجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔
بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں نے الزام عائد کیا تھا کہ میانمار کی فوج نے ان کی خواتین کو وسیع پیمانے پر جنسی زیادتیوں کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ ان واقعات کی وجہ سے کتنی خواتین یا لڑکیاں حاملہ ہوئی تھیں۔تاہم اقوام متحدہ اور ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے اہلکاروں نے بتایا ہے کہ اس سال بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں کم ازکم اڑتالیس ہزار خواتین بچوں کو جنم دیں گی۔ روہنگیا اقلیتی برادری کے ایک رہنما عبدالرحیم نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ بذات خود ایسی دو خواتین کو جانتے ہیں، جنہیں میانمار کے فوجیوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا
اور وہ حاملہ ہو گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ یہ خواتین آئندہ کچھ مہینوں میں مائیں بن جائیں گی۔ عبدالرحیم نے مزید کہا کہ کوکس بازار کے کیمپوں میں ایسی متعدد خواتین موجود ہیں، جو عنقریب مائیں بننے والی ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا، ’’میانمار کے فوجیوں نے ان خواتین کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ بچے ان کے جرائم کا ثبوت ہیں۔‘‘دوسری طرف کئی ماہرین نے ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ روہنگیا گھرانے ٹین ایج بچیوں کے حمل کو چھپانے کی خاطر ان کی شادیاں کر سکتے ہیں یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پیدائش کے بعد ان بچوں کو کہیں لاوراث
چھوڑ دیا جائے۔ادھر میانمار کی فوج ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ اس کی طرف سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مسلم اقلیتی روہنگیا باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہو یا ان کی خواتین کے ساتھ کوئی جنسی زیادتیاں کی گئی ہوں۔