سمندر کی گہرائی میں تیل کھانے والے بیکٹیریا دریافت

کرہِ ارض پر سمندر کے گہرے ترین مقام پر ایسے بیکٹیریا دریافت ہوئے ہیں جو تیل کے اجزا کو کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

بحرالکاہل کے مقام پر ایک مشہور مقام ماریانا ٹرینچ ہے جس میں ایک گہری کھائی ہے۔ اس کی گہرائی 11 ہزار میٹر یا قریباً 36 ہزار فٹ ہے اور عین اسی مقام پر ماہرین نے عجیب و غریب بیکٹیریا دریافت کیے ہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ لی اسمتھ نے یہ ٹرینچ دریافت کی ہے اور ان کا اصرار ہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق پورے کرہِ ارض کے مقابلے میں سب سے زیادہ تیل نگلنے والے بیکٹیریا ماریانا خندق میں ہی ملے ہیں۔
تیل ہو یا گیس دونوں ہی ہائیڈروجن اور کاربن ایٹموں پر مشتمل ہوتے ہیں اور قدرتی طور پر بعض خرد نامیے ان جیسے مرکبات کھا کر توانائی حاصل کرتے ہیں۔ 2010ء میں خلیجِ میکسیکو میں تیل کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے ایسے ہی بیکٹیریا کام آئے تھے جن کی بدولت خام تیل کو سادہ اجزا میں تقسیم کیا گیا تھا۔

اب ماریانا ٹرینچ کے یہ بیکٹیریا بھی عین وہی خواص رکھتے ہیں۔ سائنس دانوں نے سمندر کی سطح سے دوہزار میٹر، چار ہزار میٹر اور پھر چھ ہزار میٹر گہرائی میں جھانکا تو ہر جگہ ایسے بیکٹیریا کی بہتات دکھائی دی لیکن اس کی وجہ ایک اور ہوسکتی ہے جو بہت پریشان کن بھی ہے۔

رپورٹ کے ایک اور مصنف نکولائی پیڈنچوک کے مطابق چونکہ یہ بیکٹیریا تیل کو بطور غذا استعمال کرتے ہیں تو اس سے ظاہر ہوا ہے کہ سمندروں کی گہرائی تک تیل یا اس کے اجزا سرایت کررہے ہیں جو ایسے بیکٹیریا کی افزائش کررہے ہیں۔

تاہم انسانی آلودگی کے ساتھ ساتھ اس کی ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ انہی گہرائیوں میں بعض بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو ڈیزل ایندھن سے ملتے جلتے ہائیڈرو کاربنز تیار کررہے ہیں۔ اس سے قبل سمندری الجی کو بھی عین یہی کام کرتے دیکھا گیا ہے۔

ماہرین نے اگرچہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت کو لازمی قرار دیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ پانی کی اس گہرائی میں شدید دباؤ سے نبرد آزما ہونے کے لیے بیکٹیریا خود کو بدل کر ہائیڈرو کاربنز کھانے لگے ہیں۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.