سعودی عرب میں میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ۔۔۔۔ سعودیہ مقیم پاکستانی صحافی نے پاکستانی جمہوریت میں شریف برادران کے کردار کا خاکہ کھینچ دیا
62 (1 ).F فی الحال میاں نواز شریف کا سیاسی مستقبل لے بیٹھامیرے یہاں ’ فی الحال ‘‘ تحریر کرنے کی وجہ پاکستان کی سابق تاریخ اور خاص طور پر عدالتوں کے ماضی کے معاملات ہیں کہ کوئی سزا جو vipمقدمات کی ہو اپنے انجام کو کبھی پہنچی ہو
معروف کالم نگار امیر محمد خان اپنے کالم میں لکھتے ہیں اسلئے میاں نواز شریف کے خلاف بھی تا حیات نااہلی کا فیصلہ بھی سابقہ فیصلوں کی طرح لگتا ہے ۔ ، فیصلے کے متعلقخاص طور پر پی پی پی اور اے این پی کا دعوی ہے کہ انہوں نے میاں صاحب کے گزشتہ دور میں میاں صاحب سے اصرار کیا تھا کہ اسے اسمبلی کے ذریعے ختم کردیں مگر شاید میاں صاحب اس خیال میں تھے کہ یہ ان پر یا انکی جماعت کے کسی فرد پر لاگو نہیں ہوگا کہ وہ تو سب صادق اور امین ہیں۔ پی پی پی اسلئے زور لگا رہی تھی کہ انہیں پتہ تھا کہ صادق اور امین کیا ہوتا ہے اور اسکے
شکنجے میں پی پی پی کی اکثریت کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ میاں صاحب کیلئے یہ مشہور ہے کہ انہوںنے کبھی اپنے مشیر اچھے نہیں رکھے جبکہ میاں شہباز شریف کسی مشاورت کو آسانی سے قبول نہیں کرتے یہ ہی وجہ ہے وہ تمامقوتوں(اسٹبلیشمنٹ) کو ہمیشہ قابل قبول رہے ہیں، میاں نواز شریف سے انکی جماعت چھوڑ کر جانے والوںکی کوئی دوسری وجوہات بھی رہی ہونگی مگر ایک بات سب کہتے ہیں کہ انہیں وقت نہیں ملتا۔ بہرحال اب فیصلہ آگیا ، چونکہ پاکستان میں اسوقت کوئی بھی سیاسی جماعت نظریاتی جماعت نہیں اگر دیکھا جائے تو تمام ہی جماعتوں کے منشور ایک ہی ہیںمقابلے کیلئے میدان میں صرف نظریاتی جماعتیں ہی کھڑی رہتی ہیں چاہے
سختی ہو یا حلوہ کھانے کا وقت ۔ہر جماعت میں صرف کرسی کے شوقین ہوتے ہیں جسے ایک جماعت میں جگہ نہیں ملتی یا کوئی برادری کے اختلافات کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہ دوسری جماعت میں جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، ہمارے سامنے شیخ رشید کی مثال موجود ہے، شیخ رشید میرے اچھے دوست ہیں مگر یہ حقیقت ہے انہیں کوئی جماعت انکیDASHING شخصیت کی بنائقبول نہیں کرتی۔ انہوںنے حال میں پی ٹی آئی کے ساتھ کچھ وقت نکالا مگراب وہاں بھی جگہ ختم ہوچلی ہے اسکی وجہ عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے لوگ ہیں حالانکہ شیخ رشید وہ شخصیت ہیں جلسہ بنا کر
دیتے ہیں، سیاسی لوگ (سیاسی لوگ جلسہ بنانے کا مطلب سمجھتے ہیں) یہ اسوقت ہوتا ہے جب مرکزی رہنماء کی آمد سے قبل جلسہ میں موجود سامعین کو جوش و جذبہ دلاتا ہے ۔ مگر چونکہ تحریک انصاف اسوقت تنزلی کی طرف جارہی ہے حالانکہ تحریک انصاف کو انتخابات کے قریب آنے پر عوام میں مقبولیت ملنی چاہئے تھی مگر عمران خان کے غیر سنجیدہ اقدامات جسکی تازہ مثال نہائیت ہی متنازعہ شخص (عامر لیاقت) کو جماعت میں قبول کرنا۔ وہ شائد شیخ رشید کا جلسے بناکر دینے کام عامر لیاقت کو سونپنا چاہتے ہیں ، تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگوں سے بات ہوئی ہے وہ اپنے لیڈر کے اس اقدام پر شاکی ہیں۔ پی پی پی کے ساتھ ملکر سینٹ کا انتخابات لڑنا بلکہ سینٹ کے انتخاب میں پی پی پی کابھرپور ساتھ دیا، جو ممبران فروخت ہوئے
انہیں ابھی تک جماعت میٰں رکھنا، مسلم لیگیا پی پی پی کو گالی نکال کراس بقول عمران خان کے بد عنوانوں کی جماعتوں سے تحریک انصاف میں آنے والوں کو گلے لگانا وغیرہ وغیرہ یہوہ معاملات نظر آتے ہیں کہ جس کی وجہ سے تحریک انصاف ان لوگوں کے ذہنوں کو سوچ بچار پر مجبور کررہی ہیجوکرپشن کے خلاف مہم میں عمران کا ساتھ دینے کیلئے کھڑے تھے۔ شیخ رشید بھی شائد مایوس نظر آتے ہیں۔ ان کی کمٹمنٹ پوری تحریک انصاف کے ساتھ نہیں بلکہ صرف عمران خان کے ساتھ تھی۔ نیز شیخ رشید لکھ پتی یا کروڑ پتی نہیں کہ وہ اپنے جلسے خود منعقد کرسکیں انہیں بغیر کسی خرچ کے ہزاروں عوام کو خطاب کرنے کا موقع ملتا تھا، جس میں یہ انکی زیادتی تھی کہ مجمع دیکھ کر وہ کچھ بھی کہہ بیٹھتے تھے ، جیسے ، اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان جس میں عمران خان نے اسمبلیوں پرلعنت تو بھیجی مگر اس لعنتی اسمبلی سیتنخواہیں لینے کو منع نہیںکیا ۔ بات ہورہی تھی میاںنواز شریف کے خلاف حالیہ عدالتی فیصلے کی جو بقول ایک ٹی وی پروگرام کے عنوان YOU ASKED FOR IT کی طرح ہے ۔ میاں صاحب نے جانے کس’ ہمدرد ‘ کے مشورے پر پانامہ کیس از خود عدالت کے حوالے کردیا ،
یہ اور بات ہے کہ عدالتوں کو میاں صاحب یا انکے خاندان کے خلاف ہی مقدمات سننے میں مزہ آرہا ہے جس کی وجہ سے لوگ تنقید بھی کررہے ہیں، توہین عدالت کے مرتکب بھی ہورہے ہیں،بابا رحمت کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کو یقینی بنائینگے ، تو کیا یہ ممکن نہیں تھا اسی جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے سیاسی مقدمات لینے سے منع کرتے ہوئے حکم صادر کیا جاتا کہ یہ معاملہ ہماری عدالت میںنہیں اسمبلیوں میں طے کیا جائے ۔ جب کوئی معاملہ یا تعلقات کی خرابی طوالت اختیار کرلے اس میں مزید خرابی پیدا ہوجاتی ہے یہ انسانی فطرت ہے اس سے اپنے آپ کو کوئی مبراء نہیں
کہہ سکتا وہ جو کچھ جواب میں کررہا ہوتا ہے وہ ا پنے آپ کو صحیح سمجھ رہا ہوتا ہے یہ دونوں جانب سے ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کے آج کے بیانات میں اور اقامہ مقدمے کے فیصلے کے بعد بہت فرق ہے اب وہ تمام اداروں کو اپنے خلاف سازش میں ملوث نہیں کررہے انتخابات کے قریب آکر کسی جماعت یا وزیر کی کارکردگی پر سخت تنقیدیقینی بات ہے کسی کو پسند نہیں آئے گی ، چونکہ انتخابات قریب ہیں یہ بات معصوم عوام پر چھوڑ دی جائے کہ اگر کارکردگی سے مطمین نہیں تو اپنے نمائیندوں کی ضمانتیں ضبط کرادیں جیسے ضمنی انتخابات میں پی پی پی کے ساتھ ہورہا ہے، عوامی رائے ہی جمہوریت کہلاتی، یہ ہی
جمہور کی آواز ہوتی ہے، اگر جمہور کو شوق ہے کہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جائیں تو انہیں ایسا کرنے دیں، اگر انصاف کے اداروں کی کارکردگی دیکھی جائے جس پرچیف جسٹس ضرورنظر ڈالینگے جب بھی سیاست دان انہیں اپنے مقدمات سے فرصت دینگے کہ کتنے لاکھ مقدمات نچلی عدالتوں میں سالوں سے زیر التوا ء ہیں نچلی عدالتوںکو بھی حکم کی ضرورت ہے کہ عوام کو تنگ نہ
کریں اور مقدمات کوکم سے کم وقت میں نمٹائیں۔ اس ملک میں جمہوریت کم عرصے اور آمریت کا دورانیہ طویل رہا ہے اسلئے چند انتخابات نا اہل لوگوںکو واقعی نااہلی کی سزا دے دینگے۔ گزشتہ کی طرح ایک اور حالیہ حکومت پہلی دفعہ جیسے تیسے تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود الحمداللہ اپنے پانچ سال مکمل کرنے جارہی ہے، یہ ایک دیوانے کی بڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جیسا آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ ’ میاں نواز شریف کو ہم نے حمائت کرکے انکی حکومت کو چلنے دیا ، میاں صاحب کے پاس بد قسمتی سے جواب دینے والا کوئی نہیں سب کو اپنی پڑی ہے ورنہ اگر تاریخ دیکھی جائے تو آصف علی زرداری کے پانچ سال میاں نواز شریف نے ایک فرینڈلیاپوزیش کا الزام لگنے کے بعد بھی پورے کرائے ماسوائے انتخابات کے قریب جب مخالفت کرنا مسلم لیگ کا حق تھا۔
جس طرح اسوقت پیپلز پارٹی کررہی ہے یہ پیپلز پارٹی کا بہ حیثیت سیاسی جماعت حق ہے۔