سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانی بے روزگار ،اصل وجہ کیا؟ دیار غیر سے تشویشناک خبر آ گئی
سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے باعث غیر مُلکی ڈرائیورز بڑی موج میں تھے کیونکہ سعودی گھرانوں نے گھر کا سودا سلف لانے‘ شاپنگ کرنے ‘ بچوں کو سکول پہنچانے اور واپس لانے کے لیے بڑی تعداد میں غیر مُلکی ڈرائیورز کی خدمات حاصل کر رکھیں تھیں۔
کئی ڈرائیورز سعودی کُنبوں سے اپنے ناز اُٹھواتے تھے اور وقتاً فوقتاً بلیک میل کر کے تنخواہوں میں اضافہ بھی کروا لیتے تھے۔مگر خواتین کی ڈرائیونگ پر سے عشروں پر محیط پابندی ہٹنے کے بعد بڑے بڑے منہ زور ڈرائیور بھی پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ کیونکہ اب گھر کی خواتین ڈرائیونگ کی طرف مائل ہو گئی ہیں اور امکان ہے کہ اگلے دس سالوں میں سعودی مملکت میں موجود غیر مُلکی ڈرائیورز کی گنتی 50 فیصد تک گھٹ جائے گی۔ ڈرائیورز کی بھرتی کے اداروں سے
جُڑے افراد کے مطابق اُن کے ریکروٹمنٹ کے شعبے کو بھی اس سے بڑا مالی دھچکا لگے گا۔ایک ریکروٹمنٹ ایجنٹ حماد البیسہان کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ریکروٹمنٹ چارجز میں کمی واقع ہو جائے گی اور غیر مُلکی ڈرائیورز کی بڑی تعداد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد وہ نقل و حرکت میں زیادہ خود مختار ہو جائیں گی اور ڈرائیورز رکھنے کی صورت میں اُن پر جو معاشی بوجھ پڑتا تھا‘ اُس سے بھی انہیں نجات مِل جائے گی۔سعودی خواتین ٹرانسپورٹ انڈسٹری میں بطور بس ڈرائیورز اور میٹرو ڈرائیورز بھی ذمہ داریاں نبھاتی نظر آئیں گی۔
جبکہ ایک اور ریکروٹمنٹ ایجنٹ صالح بن عبدالواحد کے خیال میں سعودی خواتین کی بڑی تعداد غیر مُلکی ڈرائیورز کے ساتھ شاپنگ کرنے اور دوسرے امور انجام دینے کو بادلِ ناخواستہ قبول کرتی رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس ماضی میں اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ڈرائیورز کی جانب سے بچوں کو سکول لے جانے اور واپس لانے کے دوران بھی وہ مختلف خدشات کا شکار رہی تھیں۔ مگر اب وہ اپنے بچوں کو خود سکول چھوڑ اور گھر واپس لا سکیں گی۔ ڈرائیورز کی عدم موجودگی اُن میں اپنے اور بچوں کے حوالے سے احساسِ تحفظ کو اُبھارے گی۔(س)