ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی کی موت، اس سے چند لمحے پہلے سعودی ولی عہد نے فون پر اس سے کیا کہا؟ اب تک کا خطرناک ترین الزام لگ گیا
استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا مبینہ ذمہ دار سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو قرار دیا جا رہا ہے اور اب اس حوالے سے ان پر ایک اور انتہائی خطرناک ترین الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ترک نیوز ویب سائٹ Yeni Safakنے دعویٰ کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل سے چند منٹ قبل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان سے فون پر گفتگو کی تھی۔ شہزادہ محمد نے جمال خاشقجی سے کہا تھا کہ وہ ریاض واپس آ جائیں لیکن وہ واپس سعودی عرب جانے پر رضامند نہ ہوئے اور انکار کر دیا، جس کے بعد انہیں سعودی عرب سے اس ایک خاص مشن پر آئے لوگوں نے قتل کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق ترک نیوز چینل A Haberنے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی سفارتخانے کے اندر کی ایک فوٹیج بھی نشر کی ہے جس میں تین اہلکاروں کو مختلف دستاویزات جلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ چینل کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق دستاویزات نذرآتش کر رہے تھے۔اس ویڈیو کے ساتھ ٹی وی اینکر بتاتا ہے کہ یہ لوگ ڈاکومنٹ شریڈر کی بجائے پرانے اور دقیانوسی طریقے سے کاغذات کو تلف کر رہے ہیں۔یقیناًوہ کاغذات کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں اور کوئی ثبوت باقی نہیں رکھنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شریڈر کا استعمال نہیں کیا۔‘‘رپورٹ کے مطابق آج ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی ترک پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور کہا کہ جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے اور ان کے خلاف ترکی میں ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔