مغرب کی درخواست پر دنیا کی مساجد …. سعودی ولی عہدنے ایسی بات کہہ دی کہ امت مسلمہ دنگ
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سرد جنگ کے دور میں مغرب کی درخواست پر سعودی عرب نے دنیا بھر میں وہاب ازم پھیلانے کیلئے فنڈز فراہم کیے تاکہ سویت یونین کا مقابلہ کیا جا سکے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ سعودی عرب کے مغربی اتحادیوں نے سرد جنگ کے دور میں درخواست کی تھی کہ مختلف ملکوں میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا جائے تاکہ سوویت یونین کی جانب سے مسلم ممالک تک رسائی کو روکا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یکے بعد دیگرے آنے والے سعودی حکومتیں اس کوشش کے حصول کیلئے راستہ بھٹک گئیں، ہمیں واپس راستے پر آنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج زیادہ تر فنڈنگ سعودی حکومت کی بجائے مختلف سعودی ادارے کر رہے ہیں۔ ملک میں جاری اصلاحاتی مہم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قدامت پرست مذہبی رہنماﺅں کو بڑی مشکل سے اس بات پر قائل کیا ہے کہ ایسی سختیاں اسلامی ڈاکٹرائن کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام سادہ اوردانشمندی پر مبنی مذہب ہے لیکن کچھ لوگ اسے ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی علماءکے ساتھ طویل مباحثے مثبت ثابت ہوئے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ہمارے اتحادیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ولی عہد شہزادے کا واشنگٹن پوسٹ کو 75 منٹ تک دیا جانے والا انٹرویو 22 مارچ کو ان کے دورہ امریکا کے آخری دن پر کیا گیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس معاملے پر بھی بات ہوئی کہ آیا انہوں نے وائٹ ہاﺅس کے سینئر مشیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ ان کی جیب میں ہیں۔ یہ بات امریکی میڈیا نے شائع کی تھی۔ بن سلمان نے اس بات کی تردید کی اور اس بات کی بھی تردید کی کہ جب ان کی اور جیراڈ کشنر کی گزشتہ سال اکتوبر میں ریاض میں ملاقات ہوئی تھی تو کشنر نے انہیں کرپشن کیخلاف بڑے کریک ڈاﺅن کیلئے گرین سگنل دیا جس کے بعد سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔
محمد بن سلمان کے مطابق، یہ گرفتاریاں ملک کا اندرونی معاملہ تھا اور گزشتہ کئی برسوں سے اس کریک ڈاﺅن کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جیراڈ کشنر کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرکے میں پاگل پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتا، اور نہ ہی انہیں استعمال کرکے ٹرمپ انتظامیہ میں سعودی مفادات کیلئے قائل کر سکتا ہوں۔ انہوں نےکہا کہ تعلقات کی نوعیت سرکاری ہے، تاہم انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ان کی کشنر کے ساتھ دوستی ہے اور یہ شراکت دار سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے نائب امریکی صدر مائیک پنس اور دیگر وائٹ ہاﺅس حکام کے ساتھ بھی روابط ہیں۔
یمن جنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اچھے یا برے آپشن نہیں ہوتے، ہمیں برے یا بدتر آپشن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کا اس انٹرویو کے حوالے سے کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ تمام بات چیت آف دی ریکارڈ ہوئی تھی لیکن بعد میں سعودی سفارت خانے کی جانب سے اس انٹرویو کے مخصوص حصے جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی۔