سزائے موت کے مجرم کو پھانسی صبح کے وقت ہی کیوں دی جاتی ہے؟
سنگین مقدمات میں سزایافتہ مجرم کےلیے سب سے سخت موت کی سزا ہوتی ہے۔ مختلف ممالک میں سزائے موت دینے کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں۔
کچھ ممالک میں مجرم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کچھ ممالک میں بجلی کی کرسی پر بٹھاکر اورکہیں زہر کا انجکشن لگا کر سزائے موت دی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں سزائے موت کے مجرم کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اور اسے علی الصبح پھانسی دی جاتی ہے۔
لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پھانسی دن یا رات کے کسی پہر کے بجائے صرف علی الصبح ہی کیوں دی جاتی ہے؟ صبح کے وقت پھانسی دینے کی چند وجوہ ہیں:
پھانسی پر عملدرآمد، جیل حکام کےلیے اس دن کا سب سے اہم کام ہوتا ہے لہٰذا وہ صبح سویرے ہی اس کام کو اس لیے انجام دیتے ہیں کہ پھانسی کی وجہ سے جیل کے دیگر روزمرہ معمولات متاثر نہ ہوں۔ پھانسی دینے کے بعد وہاں موجود میڈیکل ایگزامنر، مجرم کی موت کی تصدیق کرتاہے اور پھر لاش فوراً ورثا کے حوالے کردی جاتی ہے۔
مجرم کو صبح کے وقت پھانسی دینے کا ایک اخلاقی جواز یہ ہے کہ مجرم کو دن بھر پھانسی کے انتظار کی اذیت سے نہ گزرنا پڑے ورنہ اس کی ذہنی حالت پر اس کا برا اثر ہوسکتا ہے، لہٰذا مجرم کو رات کے وقت آرام کرنے دیا جاتا ہے اور پھانسی کے وقت سے چند گھنٹے قبل اٹھا کر غسل کروایا جاتا ہے جس کے بعد وہ چاہے تو عبادت کرسکتا ہے۔ پھر اسے پھانسی گھاٹ پر لے جایا جاتاہے اور پھانسی دے دی جاتی ہے۔ اس وقت پھانسی گھاٹ پر ایک ڈاکٹر، جیل حکام اور مجسٹریٹ موجود ہوتے ہیں۔ مقدمے کا مدعی اگر چاہے تو مجرم کی پھانسی کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
صبح کے وقت انسان کے اعضا تروتازہ ہوتے ہیں جس سے پھانسی کے وقت تکلیف کم ہوتی ہے جب کہ دن کے وقت اعضا سخت ہوتے ہیں اور مجرم کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لیے پھانسی دینے کےلیے صبح کے وقت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
پھانسی علی الصبح دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پھانسی دیئے جانے کی خبر کا اثر معاشرے پر منفی انداز میں پڑتا ہے لہٰذا معاشرے میں موجود افراد کو کوئی صدمہ نہ پہنچے، اس لیے پھانسی دینے کا وقت ایسا مقرر کیاگیا ہے جب سب لوگ سورہے ہوں۔