شام پر میزائل حملوں کے دوران امریکی فوجی فون پر روسی فوج سے کیا بات کہتے رہے؟ جان کر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ ایسا بھی ممکن ہے
شام میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ حملے کو حربی ماہرین تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بتا رہے تھے لیکن روس کی طرف سے جوابی حملے کے غالب امکان کے باوجود تاحال فوجی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب اس متوقع تصادم کے ٹل جانے کا سہرا ایک ہاٹ لائن کے سر باندھا جا رہا ہے جس پر حملے کے دوران امریکی فوجی روسی فوج سے ایسی بات کہتے رہے کہ سن کر
کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور روس کے مابین ایک ہاٹ لائن قائم ہے جہاں دونوں ملکوں کا 24گھنٹے رابطہ رہتا ہے۔ یہ ہاٹ لائن 2015ءمیں اس وقت قائم کی گئی تھی جب روس نے پہلی بار شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں اپنی فوجیں شام میں اتاری تھیں۔ اس ہاٹ لائن کا مقصد امریکہ اور روس کے مابین غلط فہمیوں کو روکنا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ حالیہ
حملے کے دوران امریکی فوجی روسی فوج کو اس ہاٹ لائن پر بار بار یقین دہانی کراتے رہے کہ یہ حملہ ان کے خلاف نہیں ہے، حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اس سے قبل واشگاف الفاظ میں روس کو دھمکی دے چکے تھے کہ ”شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والے ’جانور‘ (شامی صدر بشارالاسد)کا ساتھ دینے پر روس کو امریکہ کے بڑے حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔“
بتایا گیا ہے کہ شام میں حکومتی افواج اور اس کی اتحادی روسی فوج پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے مبینہ الزامات کے ردعمل میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے جو مشترکہ فوجی کارروائی کی اس دوران اس ہاٹ لائن پر امریکہ اور روس کے درمیان متعدد رابطے ہوئے، جن میں امریکی افواج روس کو یقین دلاتی رہی کہ یہ کارروائی اس کے خلاف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتحادی اور روسی
افواج تصادم کی نوبت سے بچ گئیں۔تاہم ایک پریس کانفرنس میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جوزف ڈنفرڈ کا کہنا تھا کہ ”ہم اس ہاٹ لائن پر اپنے ٹارگٹس کے متعلق روسیوں سے بات نہیں کرتے۔ اس پر ان سے صرف ایئرسپیس سے متعلق مشاورت یا منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔کسی بھی حملے سے قبل اس ہاٹ لائن کے ذریعے ہم روس سے بات کرتے ہیں تاکہ ہمارے اس
حملے میں روسی افواج یا عام شہریوں کی ہلاکتیں نہ ہوں۔ شام پرامریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حالیہ حملہ روس کے ساتھ تصادم نہیں ہے بلکہ یہ کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف ہمارا ردعمل ہے جن کا استعمال کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ “