’میری بہن سکول ٹیچر تھی، ایک دن جاننے والوں نے رشتہ بھیجا تو شادی کردی، چند دن بعد ہی وہ گھر آئی تو کہنے لگی اس کا سسر۔۔۔‘ پاکستانی لڑکے نے ایسا انکشاف کردیا کہ ہر پاکستانی کا دل رونے لگے
بہو پر سسرال کے مظالم ہمارے معاشرے میں بہت ہی عام پائی جانے والی کہانی ہے۔ بعض اوقات تو یہ مظالم حد سے گزر جاتے ہیں، گویا سسرال والے بالکل ہی بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی بیٹیوں والے ہیں۔ ایک ایسی ہی المناک کہانی ویب سائٹ Parhloپر صبا نامی بدقسمت لڑکی کے بھائی نے بیان کی ہے، جو اپنے سسرال کے مظالم سہتے سہتے بالآخر جاں سے ہی گزر گئی۔
دو روز قبل یہ لڑکی دنیا سے رخصت ہوئی اور اس کے سسرال والوں کا کہنا ہے کہ اس نے خود کشی کی جبکہ صبا کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کی بہن کو قتل کیا گیا۔ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے ”بہت دکھی دل کے ساتھ میں یہ کہانی سوشل میڈیا پر پوسٹ کررہا ہوں۔ یہ میری بہن کی کہانی ہے جو دو روز قبل دنیا سے رخصت ہوچکی ہے۔ صبا میری بڑی بہن تھی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے اور ہر بات شیئر کرتے تھے۔ وہ سمارٹ اور ذہین تھی۔ اکبر پبلک سکول سے اس نے میٹرک کیا تھا اور اے ون گریڈ حاصل کیا تھا جس کے بعد وہ سرسید گورنمنٹ گرلز کالج میں داخل ہوئی۔ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد وہ سٹی سمارٹ سکول کے نرسری سیکشن میں پڑھاتی تھی۔ اسی دوران اس کا رشتہ آیا جسے ہم نے قبول کر لیا۔
اس کی شادی 13 فروری 2014ءکے روز ہوئی جب اس کی عمر 21 سال تھی۔ چند دن بعد ہی اس نے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے بارے میں ہمیں بتانا شروع کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا سسر اسے بے حد غلیظ گالیاں دیتا تھا۔ اس کی ساس بھی ہر وقت اسے طعنے دیتی تھی۔ جب اس کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو سسرال والوں نے اس کی کالی رنگت کی وجہ سے اسے اپنی اولاد ماننے سے انکا رکردیا۔
میری بہن ایک ننھے بچے کی ماں ہونے کے باوجود روزانہ تقریباً 20افراد کا کھانا بناتی تھی اور ان کی بدسلوکی بھی برداشت کرتی تھی۔ پھر اس کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی لیکن اس کے ساتھ بدسلوکی میں کمی آنے کی بجائے اوراضافہ ہوگیا۔ ایک دن اس کے شوہر نے اسے اتنے زور سے تھپڑ مارا کہ اس کے کان میں سے خون بہنا شروع ہوگیا۔
چند روز قبل کمرے کی صفائی نہ ہونے پر ایک بار پھر ان کے درمیان لڑائی ہوئی۔ ابو نے ان سے بات کی اور دونوں کو سمجھایا لیکن دو دن قبل ہمیں کال آئی اور بتایا گیا کہ صبا نے خود کشی کرلی ہے۔ میری بہن ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی، وہ کبھی بھی خود کشی نہیں کرسکتی۔ مجھے اپنی بہن کے لئے انصاف چاہیے، میں یہ سب کچھ کیسے لکھ رہا ہوں، میں ہی جانتا ہوں۔ وہ خود کشی نہیں کرسکتی، اسے ماردیا گیا ہے۔ میں نے اپنی بہن کا جنازہ اٹھایا ہے، میں نہیں چاہتا کسی اور کے ساتھ یہ ہو۔“