ٹرمپ عمران خان سے خائف’ ڈو مور کی فوری تردید سے دنیا حیران عالمی سربراہان نے وزیر اعظم کو دیکھنے اور سننے کے لئے بیتاب…. اہم ترین انکشافات

امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیوکی وزیراعظم عمران خان کو کال دراصل نئی پاکستانی قیادت کا ایک ٹیسٹ تھا جس میں امریکہ ناکام رہا۔ یہ طے تھا کہ مائیک پومپیو نئے پاکستان کے وزیراعظم سے گفتگو میں دہشت گردی کے خلاف ’’ڈومور‘‘ کی بات نہیں کریں گے کیونکہ امریکی پالیسی سازوں کو یقین تھا کہ عمران خان اپنے مزاج کے مطابق اس پر نہایت سخت ردعمل کا اظہار کر سکتے ہیں۔عمران خان کا ٹیسٹ لینے کیلئے متنازعہ بیان جاری کرنے کا پلان تیار کیا گیا۔ عمران خان اس بیان پر چپ رہتے جیسے کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے تو امریکی قیادت پاکستان کے ساتھ سابقہ "بدسلوکی” جاری رکھتی۔ عمران خان کی تردید نے پوری دنیا کو حیرت کا کرنٹ لگا دیا ہے۔ دنیا نئے پاکستان کو ایک نئی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے گئے تو نیویارک کی سڑکوں پر ان کا استقبال مثالی اور جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر دنیا بھر کے سربراہان مملکت کی دلچسپی دیدنی ہوگی۔

امریکہ پہلی مرتبہ پاکستان کی جارحانہ سفارتی حکمت عملی کا سامنا کرے گا اور امریکہ کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ سول حکومت اور فوجی قیادت ہر معاملے میں ایک پیج پر نظر آئیں گی۔ پاک امریکہ تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کو سمجھنے کیلئے امریکی قیادت کے ماضی کے کردار اور پاکستانی سیاسی و فوجی قیادتوں کی مجبوریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ بطور سپر پاور امریکہ پوری دنیا کے ساتھ تعلقات میں صرف اپنے مفادات کے تحفظ کو فوقیت دیتا ہے اور امریکیوں کی یہ نفسیات ہے کہ وہ اس سے بہت بہتر تعلقات رکھتے ہیں جو ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈیل کرتا ہے۔ جو کوئی امریکی دوستی کو اپنی ضروریات کے تناظر میں دیکھتا ہے تو امریکہ اسے ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ پاکستان نے اپنے قیام کے بعد سے صرف امریکہ پر انحصار کیا۔امریکی مفادات کے تحفظ کی جنگ پاکستان لڑتا رہا لیکن

جواب میں 70 سالوں کے دوران پاکستان کو سانحہ 71ء ‘ پریسلر ترمیم‘ دھمکیاں‘ پابندیاں‘ بھارتی بالادستی‘ دہشت گردی‘ غیرمحفوظ پاک افغان بارڈر، عسکریت پسندی‘ انتہا پسندی‘ فرقہ واریت‘ غیر جمہوری حکومتیں، زبردست مالی نقصانات‘ جانی نقصانات‘ سانحہ ایبٹ آباد‘ سانحہ لاہور ریمنڈ ڈیوس‘ سانحہ سلالہ اور برے الزامات کے سوا کچھ نہ ملا۔قابل غور بات یہ ہے کہ ماضی میں امریکی صدور پاکستانی وزرائے اعظم کو کامیابی پر بذات خود ٹیلی فون کالز کرکے مبارکباد پیش کرتے رہے لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو امریکی صدر نے مبارکباد نہیں دی۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 ء میں نواز شریف کیلئے اپنی باہیں کھول دی تھیں۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں بھی پاکستان اور پاکستانیوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ جارج بش، کلنٹن اور اوبامہ نے بھی پاکستانی اعلیٰ سیاسی قیادت کو ذاتی طور پر ٹیلی فون کر کے مبارکبادیں پیش کیں۔سفارتی شعبے میں کام کرنے والے اعلیٰ سرکاری افسران اور پاک امریکا تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سٹیڈیجک اداروں سے وابستہ شخصیات سے بات چیت کے نتیجے میں یہ نکتہ سامنے آیا

کہ امریکہ پاکستان کی نئی قیادت سے خائف ہے۔ امریکی تجزیہ کار اور تھنک ٹینک تجزیہ نہیں کر پا رہے تھے کہ عمران خان کی قیادت میں نیا پاکستان کیسا ہوگا؟ اس مقصد کیلئے انہوں نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ امریکی صدر ٹرمپ چونکہ اپنی غیر ذمہ دارانہ گفتگو اور اقدامات کی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی سطح پر اپنا اعتماد کھو چکے ہیں لہذا سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو وزیراعظم عمران خان کو کال کریں گے اور محتاط گفتگو کریں گے۔لیکن بعد ازاں بیان جاری کرتے وقت امریکہ کے پرانے موقف دہشت گردی کے خلاف مزید اقدامات ’’ڈومور‘‘ کا ذکر کیا جائے گا۔ امریکی سوچ یہ تھی کہ اگر عمران خان نے سرکاری سطح پر خاموشی اختیار کی تو جیسے چلتا ہے

چلتا رہے گا لیکن امریکی قیادت کو جو شک تھا بالکل وہی ہوا۔ عمران خان نے ماضی کی پاکستانی قیادت کے برعکس امریکی بیان کو اگلے ہی لمحے جھوٹ قرار دے کر مسترد کردیا۔ ایک سینئر پاکستانی سفارتکار نے خیال ظاہر کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی عالمی سطح پر مقبولیت سے جیلس ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عمران خان کو زیادہ پذیرائی نہ ملے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ عالمی سطح پر عمران خان جیسا مقبول عالمی راہنماء4 پہلے نہیں دیکھا گیا۔ عمران خان باقی دنیا میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی جہاں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی بہت مقبول ہیں۔ اگر عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو ان کے خطاب کے موقع پر جنرل اسمبلی میں "ہاؤس فل” ہوگا۔ عالمی رہنماء اور سربراہان مملکت عمران خان کو دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔پاک امریکہ تعلقات کے تجزئیے کے دوران تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کو بھی افغانستان میں سوویت یونین کی طرح

شکست ہو چکی ہے اور پاکستان کی سلامتی سے متعلق اداروں کی زبردست اور غیرروایتی حکمت عملی کے نتیجے میں پاکستان گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران امریکی کیمپ سے بہت حد تک باہر نکل آیا ہے۔ اگر امریکی قیادت نے نئے پاکستان کی حقیقت کو تسلیم نہ کیا تو امریکی کیمپ سے نکلنے والا پاکستان امریکہ مخالف کیمپ میں شامل ہوسکتا ہے ۔جو امریکہ کے مفاد میں بہتر نہیں ہوگا۔ سی پیک کی بروقت تکمیل اور چین اور روس سے قربت کے ساتھ ساتھ امریکہ پر کم سے کم انحصار کی پالیسی آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان کو دنیا کے تیز رفتار ترقی والے پراعتماد اور غیرت مند ملک میں بدل سکتی ہے جس کے بعد وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء مکمل طور پر امریکی اثر سے باہر نکل آئے گا۔ گویا مودی ٹرمپ ڈاکٹرائن دفن ہونے والی ہے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.