متحدہ عرب امارات میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے والا یہ آدمی دراصل کون اہم اور معروف ترین شخص ہے؟ جان کر آپ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے
ہمارے ہاں قابل اور نامور شخصیات کی بے قدری دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے، لیکن اتفاق کچھ ایسا ہے کہ ہمارے آس پاس کے ممالک میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہے۔ کبھی پتا چلتا ہے کہ کوئی عظیم اداکار آخری عمر میں اتنا مفلوک الحال ہے کہ علاج کروانے سے بھی قاصر ہے تو کبھی کوئی مشہور کھلاڑی اپنے میڈل فروخت کرنے کے لئے سڑک کنارے بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایک ایسی ہی افسوسناک مثال سری لنکا کا وہ مشہور اتھلیٹ ہے جو کبھی اپنے ملک کا فخر کہلاتا تھا لیکن آج متحدہ عرب امارات میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے پر مجبور ہے۔
خلیج ٹائمز کے مطابق کچھ عرصہ قبل سری لنکا کے سابق اتھلیٹ للیت پرسانا کے متعلق بتایا گیا کہ وہ متحدہ عرب امارات میں ٹیکسی چلا رہے تھے۔ اس انکشاف پر سری لنکا کے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپاہوگیا اور ہر کوئی اپنے قومی ہیرو کی بے توقیری پر برہم نظر آیا۔ اب اسی للیت پرسانا نے یہ انکشاف کر دیا ہے کہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر متحدہ عرب امارات میں مزدوری کرنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ان کی نظر ایک سکیورٹی گارڈ پر پڑی مگر وہ یہ دیکھ کر ساکت رہ گئے کہ وہ ان کے پرانے دوست اور سری لنکا کے نامور اتھلیٹ ڈی ڈبلیو پرسانتھا تھے۔
کبھی شہرت کی بلندیوں پر فائز رہنے والے پرسانتھا سری لنکا کی فوج کا حصہ بھی رہے اور 1989ءتک آرمی کی جوڈوٹیم کا حصہ تھے۔ بعدازاں وہ ریس میں بھی حصہ لینے لگے اور 1991ءمیں 5ہزار میٹر ریس کے فاتح قرار پائے اور گولڈ میڈل جیتا۔اسی طرح انہوں نے 1993ءمیں تین ہزار میٹر کی ریس میں گولڈ میڈل جیتا اور نیا قومی ریکارڈ بھی قائم کیا۔ بعدازاں انہوں نے کوچنگ کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی اور سری لنکا کے بہترین اتھلیٹس کی کوچنگ کرتے رہے۔
پرسانتھا ایک مشہور اتھلیٹ اور کوچ تو تھے لیکن آمدنی اتنی قلیل تھی کہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے سے قاصر تھے۔ بالآخر انہوں نے 2013ءمیں متحدہ عرب امارات میں نوکری کی درخواست دی اور ایک کمپنی میں سکیورٹی گارڈ بھرتی ہو گئے۔ آپ ان کی مجبوری و کسمپرسی کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ یہ نوکری انہیں مل گئی اور اب وہ باعزت طریقے سے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔