وزیر اعظم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا امکان مسترد کردیا
وزیر اعظم عمران خان نے فلسطین کے تنازع کے حل سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا امکان مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اسرائیل کے معاملے میں پاکستان کی پوزیشن بالکل واضح ہے ۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے بالکل صاف کہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے فلسطینیوں کا اپنا ملک ضروری ہے’۔
نیو یارک میں ایشیا سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ اس تقریب کو مستقبل کے لیے نیٹ پریکٹس کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے 22، 23 سال کی سیاست میں میں نے لوگوں میں اتنی بے چینی نہیں دیکھی جتنی میرے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کے لیے ہے، اس سے قبل مجھ میں اس طرح کے جذبات ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے سے قبل تھے’۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم نے پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر بات کریں گے اور بھارت کے کشمیر کو تقسیم کرنے کے اقدام کے پیچھے چھپے مقاصد کو عیاں کریں گے۔
ایشیا سوسائٹی سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان کے لیے وہی نظریہ ہے جو بانی پاکستان کا تھا اور جو مدینہ کی ریاست کے قیام کا نظریہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘کئی مسلمان یہ نہیں جانتے کہ مدینہ کی ریاست جدید ریاست تھی، بہت کم سیاستدان نے ریاست کو سمجھتے ہیں جو فلاحی اور انسانی حقوق پر مبنی ہوتی ہے اورر کمزوروں کے حقوق کی ذمہ داری لیتی ہے اور تمام مذاہب اور شہریوں کو برابری کے حقوق دیتی ہے’۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہاکستان اب تک اس نظریے سے بہت دور رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس کے بر عکس چل رہے تھے، ایک ایسا معاشرہ جہاں طاقت ور کے لیے الگ اور کمزور کے لیے الگ قانون ہوتا ہے، کئی لوگوں کو انصاف تک رسائی ہی نہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘قانون کی حکمرانی سے ہی معاشرہ بنتا ہے جس کی وجہ سے میں نے اپنی تحریک کا نام تحریک انصاف رکھا اور میرا ماننا ہے کہ قانون کی حکمرانی بنیادی چیز ہے جو مہذب معاشرے اورغیر مہذب معاشرے میں فرق کرتا ہے’۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان تحریک جب اقتدار میں آئی تو اسے خساروں میں ڈوبی معیشت ملی تھی اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں اصلاحات کرنے تھے’۔
ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات کے بعد اب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک سال میں 70 فیصد تک کم ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘دیگر چیلنجز میں اداروں کو ٹھیک کرنا شامل تھا، ایک ادارہ جسے ہم ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ہے وفاقی بورڈ آف ریوینیو، ٹیکس نظام کو ٹھیک کرنا ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں اب یہ فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے گزشتہ 2 ماہ میں ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے’۔
درپیش خارجی چیلنجز
خارجی چیلنجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘جب ہم اقتدار میں آئے تو ہم نے افغانستان سے دوریاں کم کرنے کی کوشش کی اور ہمارے اب افغان حکومت سے بہت اچھے تعلقات ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایران کے معاملے میں ہمیں امید ہے کہ ہم اہم کردار ادا کریں گے، میں نے ایرانی صدر سے ملاقات کی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پاکستان سے کردار ادا کرنے کا کہا ہے’۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنی کوشش کر رہے ہیں تاہم یہ مسئلہ نہایت پیچیدہ ہے’۔
وزیر اعظم عمران خان نے فلسطین کے تنازع کے حل سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا امکان مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اسرائیل کے معاملے میں پاکستان کی پوزیشن بالکل واضح ہے ۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے بالکل صاف کہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے فلسطینیوں کا اپنا ملک ضروری ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب تحریک انصاف حکومت میں آئی تو ریاست نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی بھی مسلح تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے نہیں دیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی معاملے پر اقدامات کرنے کا کہا تھا اور ان سے بھروسے کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کا بھی کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم زیادہ آگے تک نہیں جاسکے جس کی وجہ بھارتی انتخابات ہوسکتے ہیں تاہم ہم نے جب انتخابات کے بعد مذاکرات بحال کرنے کی کوشش کی تو ہمارے سامنے پتھر کی دیوار کھڑی کردی گئی’
’عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے‘
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر عالمی فورمز پر زور دیا کہ وہ کسی بھی انسانی سانحے سے بچنے کے لیے مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی کریں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی قابض فورسز نے گزشتہ 54 روز سے 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں کومقبوضہ وادی میں محصور کررکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں کرفیو کی پابندی جلد از جلد اٹھائی جائے اور بھارت اپنے تمام غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات واپس لے۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت میں لاکھوں کی تعداد میں مقیم اقلیتوں کو مظالم کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی اُمنگوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کیا جانا چاہیے۔