مولانا فضل الرحمٰن 27 اکتوبر کے دن احتجاج پر نظرثانی کریں، وزیر خارجہ کی درخواست
وزیر خارجہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست کی ہے کہ وہ دھرنے کی اعلان کردہ تاریخ 27 اکتوبر پر نظرثانی کریں اور ساتھ ہی کہا ہے کہ کسی اور دن احتجاج کا حق استعمال کریں۔
شاہ محمود قریشی نے سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک پر مختلف نجی نشریاتی اداروں سے بات کی ویڈیوز شیئرز کی، جس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے اس معاملے پر نظرثانی کا کہا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فورسز نے سری نگر پر یلغار کی اور مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا، ہر سال پوری کشمیری قوم اس روز کو یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ دو روز قبل کشمیر سیل میں اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت اہم رہنما موجود تھے اور متفقہ فیصلہ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے گزارش کریں گے کہ اس سال 27 اکتوبر 2019 کو یوم سیاہ کے طور منایا جائے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں وہ باتوں کو سمجھتے ہیں، احتجاج ان کا جمہوری حق ہے اور وہ فیصلوں میں آزاد ہیں لیکن میری ان سے گزارش ہے کہ 27 اکتوبر کا دن احتجاج کے لیے مناسب نہیں، اس پر نظرثانی فرمائیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ دن کشمیر اور کشمیر کاز سے منسوب ہے اگر اس کے ساتھ کچھ اور منسوب کریں گے تو بھارت کے بیانیے کو تقویت دیں گے اور وہ پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوجائے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن کو ہی مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ اپنا دھرنا بھی چاہتے ہیں تو اس کی تاریخ پر نظرثانی کریں، ویسے بھی ان کے حلیفوں میں مکمل طور پر اتفاق نہیں، میری بطور پاکستانی ان سے گزارش ہے کہ اس پر نظرثانی کریں کیونکہ اس سے کشمیر کاز کو تقویت نہیں پہنچے گی بلکہ نقصان پہنچے گا۔
اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ڈینگی کا غرض ہوگا مجھے کشمیر کا ہے، 27 اکتوبر کا دن یوم سیاہ سے منسوب ہوچکا ہے، اس روز کچھ اور چیز کرنا اس میں ملاوٹ کرنے کے مترادف ہوگا اور یہ پاکستان اور کشمیر کاز کے مفاد میں نہیں۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ کشمیر سیل کے متفقہ فیصلے سے وزیراعظم عمران خان کو سفارش بھیج رہے ہیں اور تجویز دے رہے ہیں کہ 27 اکتوبر کو پورے پاکستان میں یوم سیاہ منایا جائے اور بھارت کی یلغار، ناجائز قبضے کے خلاف آواز اٹھائیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سری نگر کے پریس کلب کے صدر کے ساتھ 107 صحافیوں نے کرفیو اور پابندیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور یہ احتجاج پاکستان یا نیویارک میں نہیں بلکہ سرنگر میں ہوا جبکہ وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے اگلے روز بھی وہاں احتجاج ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بلیک آؤٹ کی وجہ سے خبریں دبائی جارہی ہیں لیکن جب خبریں باہر آئیں گی تو بھارت کا چہرہ بے نقاب ہوجائے گا۔
ایک اور ویڈیو میں وزیرخارجہ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن 27 اکتوبر کی اہمیت کو یقیناً سمجھتے ہیں، یہ دن کشمیریوں کی جدوجہد سے منسوب ہے، اگر آپ اس روز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کریں گے تو کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ مارچ کرنا ان کا سیاسی فیصلہ ہے وہ کسی اور روز کا تعین کرلیں، بحیثیت وہ ایک قومی اور دینی رہنما کے اس فیصلے پر غور کریں۔
گذشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت، حکومت مخالف ‘آزادی مارچ’ کا آغاز 27 اکتوبر سے کرے گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حکومت جعلی انتخابات کے نتائج سے موجود میں آئی اور سب نے 25 جولائی 2018 کے انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے از سر نو نئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘اس حکومت نے مقبوضہ کشمیر کا سودا کردیا ہے، 27 اکتوبر کو ہم کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کریں گے اور اس کے لیے مظاہروں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب بھی مارچ کریں گے جس کے لیے پورے ملک سے قافلے چلیں گے اور اسلام آباد پہنچیں گے، جو اس حکومت کو چلتا کریں گے’۔