یہودی عالم نے سر بازار رسول اللہ ﷺ کی چادر گستاخانہ انداز میں کھینچ کر اپنا قرض مانگا توجواب میں حضرت عمرؓ نے بھی اسکو ایسی بات کہہ دی کہ اللہ کے رسولﷺ کو ان کا یہ طرزعمل پسند نہ آیا اور فرمایا کہ ۔۔۔

قریش مکہ سمیت بہت سے قبیلوں اور نسلوں کے عالم فاضل لوگوں نے بھی اسلام قبول کرنے سے پہلے رسول خداﷺ کو آزما کر دیکھا کہ کیا واقعہ آپﷺ میں نبی کی نشانیاں موجود ہیں ۔ طبرانی ، ابن حبان ، حاکم ، بیہقی ، ابو نعم اور ابو شیخ نے اخلاق النبی ﷺ کے باب میں اس ضمن جہاں کئی واقعات کا ذکر کیا ہے وہاں ایک یہودی عالم کے گستاخانہ طرز عمل کا بھی ذکر کیا ہے جس محض رسول خداﷺ کو آزمانے کے لئے ایسا رویہ اپنانے پر مجبور ہوا تھا ۔

زید بن سعنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک یہودی عالم تھا ۔ اس نے تورات شریف میں آپ ﷺکی صفات پڑھ رکھی تھیں ۔ حق کا متلاشی تھا۔ نبی کریم ﷺ کی صداقت کی تمام علامات اس پر واضح ہو چکی تھیں۔ صرف دو صفتیں ایسی تھیں جن کی وہ تصدیق کرنا چاہتا تھا۔ ایک یہ کہ ’’آپ ﷺ کا تحمل آپﷺ کے غصہ پر غالب ہوگا ۔‘‘ دوسری صفت ’ ’ان سے شدید جہالت کے سلوک کے باوجود ان کے حلم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ ‘‘

یہ دونوں صفات مکارم اخلاق کے لحاظ سے نہایت بلند یایہ ہیں ۔ بھلا ایسا کون ہے جس سے بدتمیزی کی جائے اور وہ اس کے جواب میں اچھا سلوک کرے۔ زید بن سعنہ مختلف بہانوں سے آپﷺ کی مجالس میں آتا تھا ، ملاقات کرتا تھا اور مذکورہ صفات کو آپﷺ کی ذات گرامی میں دیکھنے کے لیے بے تاب رہتا تھا ۔ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ اسے یہ موقع میسر آگیا ۔ زید کے اپنے الفاظ یہ ہیں ’’ میں آپﷺ کی مجلس میں تھا ۔ ایک اعرابی آیا ۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے علاقے کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے تھے ۔ اب انہیں قحط اور فقر و فاقہ کا سامنا ہے۔ اگر انہیں فوری مد نہ ملی تو خطرہ ہے کہیں وہ اسلام سے نکل نہ جائیں۔ آپ ﷺسے امداد کا طالب ہوا۔ اس وقت آپ ﷺکے پاس رقم نہیں تھی ۔ میں نے اپنے ذہن میں ایک پلان بنایا او راللہ کے رسول ﷺ سے کہا: میں آپﷺ کے لیے فلاں آدمی کے باغ سے ایک و سق کھجور خرید لیتا ہوں (وسق تقریبا 200 کلو گرام کا ہوتا ہے ) اور آپﷺ کو دے دیتا ہوں ۔آپﷺ کھجوریں کچھ دن کے بعد دے دیجیے گا ‘‘

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ کسی خاص شخص سے خریدنے کی بات نہ کروبلکہ تم مجھ سے یہ کھجوریں ایک خاص مدت کے بعد وصول کرلینا اور ادائیگی ابھی کردو‘‘ میں نے اپنی پوٹلی کھولی اس میں سے 80دینار نکالے اور آپﷺ کے حوالے کردیے۔ آپﷺ نے اسی وقت اعرابی کوبلایا اور اسے رقم دے کر فرمایا’’ اپنے علاقے میں فوراً واپس چلے جاؤاور لوگوں کی مدد کرو‘‘

ابھی کھجوروں کی ادائیگی کے وعدے کی میعاد میں دو تین دن باتی تھے کہ میں نے ان کے تحمل و بردباری کی آزمائش کا فیصلہ کر لیا۔ ایک جنازے کی ادائیگی کے لیے آپ حضرات ابو بکر صدیقؓ ، عمرفاروقؓ اور دیگر صحابہؓ کے ساتھ جنت البقیع تشریف لے گئے ۔ جنازہ سے فارغ ہو ئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپ ﷺکی چادر پکڑ لی اور اتنے زور سے کھینچی کہ وہ آپﷺ کے کندھے سے اتر گئی اور ساتھ ہی نہایت کرخت لہجہ میں کہا ’’ محمدﷺ میرا قرض واپس نہیں کرو گے ؟ تم بنو عبدالمطلب کے لوگ قرض واپس کرنے میں اچھے نہیں ہو۔ ادائے قرض میں بہت دیر کرتے ہو۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ لوگوں سے تمہارے معاملات کی کیا حالت ہے!‘‘

زید کا یہ مطالبہ نہایت غیر معقول تھا ۔ کیونکہ ابھی وعدے کی مدت میں کئی دن باقی تھے اور پھر اندازایسا بازاری جس میں پورے خاندان کو گھسیٹا گیا ہو ، کسی بھی شخص کو غصہ دلانے کے لیے کافی تھا۔ عمر فاروقؓ آپ کے ساتھ ساتھ تھے اور اس کی بکواس سن رہے تھے۔ وہ بھلا کہاں خامو ش رہنے والے تھے ۔ فوراً بولے’’ او اللہ کے دشمن! تمہاری یہ جرات کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ اس قسم کی گھٹیا گفتگو کررے ہو۔ یہ میں کیا دیکھ سن رہا ہوں ۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! اگر مجھے ان کی پاسداری نہ ہوتی تو تمہاری اس بدتمیزی پر تمہاری گردن اُڑا دیتا ۔ تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ تم ایسی واہیات گفتگو کرو‘‘

اب ذرا اللہ کے رسول ﷺ کا ردعمل ملاحظہ فرمائیں۔ اتنی سخت گفتگو سننے کے باوجود بھی آپﷺ مشتعل نہیں ہوئے ۔ آپﷺ کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ موجود رہی ۔آپ ﷺ نے عمر فاروقؓ کو مخاطب کیا اور فرمایا’’ عمر ! ایسی بات نہ کرو بلکہ تمہیں چاہیے تھا کہ تم مجھ سے یہ کہتے کہ میں اس کا قرض خوش اسلوبی سے ادا کروں اور اسے یہ سمجھاتے کہ میاں ! قرض کا تقاضا بھلے طریقے سے کرو۔‘‘

پھر حکم دیا’’ عمر جاؤ اور اس کا قرض واپس کرو اور ہاں چونکہ تم نے اسے ڈرایا، دھمکایا ہے ، اس لیے اسے بیس صاع(تقریباً 50کلو) کھجوریں زیادہ ادا کرو‘‘ زید بن سعنہ نہایت توجہ سے یہ گفتگو سن رہا تھا ور حیران تھا کہ اس قدر اشتعال انگیز گفتگو کے باوجود بھی آپﷺ حسب سابق تبسم کناں ہیں بلاشبہ آپﷺ کا حلم آپ کے غصہ پر سبقت لے گیا ہے۔

زید کہتے ہیں کہ عمرفاروقؓ مجھے ساتھ لے کر بیت المال گئے ۔ میرا قرض واپس کیا اور حسب ہدایت بیس صاع کھجوریں دیں اور پوچھاتم ہی بتاؤ۔ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں زید بن سعنہ ہوں ۔ کہنے لگے: اچھا الحبر، یعنی وہی جو مشہور یہودی عالم ہے ۔ میں نے کہا کہ جی ہاں الحبر ۔ اب عمرفاروقؓ نے کہا کہ یہ جو تم نے اللہ کے رسول ﷺ سے گفتگو کی ہے اور ان کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آئے ہو تمہیں اس کا ہر گز کوئی حق نہیں تھا ۔

میں نے کہا’’ عمر! تم ٹھیک کہتے ہومگر تمہیں معلوم نہیں کہ میں حق کا متلاشی تھا۔ میں نے نبوت کی تمام صفات آپﷺ میں دیکھ لی تھیں۔ دو صفتیں باقی رہ گئی تھیں۔ جن کا تعلق آپﷺ کے تحمل ، حوصلہ مندی اور بردباری سے تھا۔ آج میں نے ان صفات کا بھی خوب مشاہدہ کرلیا ہے۔ بلاشبہ وہ نبی آخر الزماں ہیں ۔ عمر ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آج سے سچے دل سے اسلام قبول کرتا ہوں ‘‘ پھر کلمہ طیبہ پڑھا اور صحابیت کے شرف سے بہرہ ور ہوئے ۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.