120 ذہین ممالک: پاکستان کاکونسا نمبر؟؟ جاں کر آپکو یقین نہیں آے گا

ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے پاکستانیوں کو ناکام اور خراب لوگ ثابت کرنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ جہاں یہ’’ ٹھیکیدار‘‘ ہمارے اخلاق و کردار کی اس طرح تشریح بیان کرتے ہیں کہ سننے والوں کے پسینے

چھوٹ جاتے ہیں، شرمندگی سے نظریں نہیں اٹھ پاتیں۔ اس شرمندگی کا اظہار ہم بہت تخلیقی انداز میں کرتے ہیں۔ اس اخلاقی انحطاط میں ہم حسبِ توفیق یا حسبِ لیاقت چند جملوں کا اضافہ کر کے

سوشل میڈیا پر آگے بڑھادیتے ہیں۔ پھر نجی محفلوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم، ہمارے والدین، ہماری بہنیں، ہمارے بھائی، بیوی بچے، ہمارے اساتذہ، ہمارے دانشور، ہمارے معاشرے کے تمام طبقات اْسی پستی کا شکار ہیں، جس سے نکلنا ممکن نہیں۔یہ بحث چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ بیانیہ معاشرتی حقائق کے مطابق ہے یا نہیں۔سوچنا یہ مقصود ہے کہ حقیقت سے کیا مراد ہے۔ میرا مسئلہ تو بہت سادہ ہے۔ وہ یہ کہ اس قسم کی گفتگو اخلاق و کردار کو سنوارنے، نکھارنے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کا سبب بنے گی؟ جس طرح کی منفی باتیں بڑھتی جارہی ہیں،

اگر یہ باتیں اچھا معاشرہ قائم کرنے کا سبب بن سکتی ہیں تو ہمیں ضرور کرنا چاہیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو بہتری کی جانب بڑھنے کاموثر طریقہ دریافت کیا جائے۔ لیکن وہ موثر طریقہ کیا ہوسکتاہے؟ چلیں، تھوڑی دیر کے لئے کسی ایسے گھر کا تصور کرتے ہیں جسے آپ آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ کیا یہ وہ گھر ہے جہاں ماں باپ بچوں کی بات بات پر تذلیل کرتے ہیں یا پھر محبت سے سمجھاتے ہیں، ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ کیا یہ وہ گھر ہے جہاں میاں بیوی ایک دوسرے سے لڑتے اور ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں یا ایک دوسرے کو سراہتے ہیں، ان کی حوصلہ

افزائی کرتے ہیں۔گھر کو چھوڑیں، کسی آئیڈیل دفتر کا جائزہ لیں۔ کیا اس دفتر میں سب ایک دوسرے کو غلط، کمتر اور نااہل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ تنقید اور برائیاں کرنے والوں کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے ہوگی۔ ان لوگوں کے گھروں یادفاترکے حالات دیکھ لیں۔ ڈرا، سہما، خوف زدہ سا ماحول ہو گا، کوئی کسی کی عزت نہیں کرتا ہو گا۔ اگرآپ کو لگتا ہے کہ زہر اگل کر اور کیچڑ اچھال کر ایک صحتمند اور شفاف معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔جہاں کہیں سچی تعریف دل کی

گہرائیوں سے کی جاتی ہو ،وہاں ہر شخص اعتماد اور خوشی سے لبریز نظر آتا ہے۔ اگر اب تک آپ نے منفی انداز سے چیزوں کو سدھارنے کی کوشش کی ہے تو کچھ عرصہ تعریف اور حوصلہ افزائی سے بھی اصلاح کی کوشش کریں۔بس ایک غلطی مت کیجئے گا، جو عام طور پر کی جاتی ہے۔ ہم برسوں سے منفی انداز میں چیزوں کو سدھار نے کی کوشش کرتے آئے ہیں، مگر یہ

ٹھیک نہیں ہوئیں۔ اس لئے کچھ عرصے کے لئے مثبت طریقے اپناتے ہیں، ماضی میں ہم فوری نتائج سامنے نہ آنے کی صورت میں دوبارہ پرانی روش پر چل پڑتے ہیں کہ ‘‘یہ قوم محبت کی زبان نہیں سمجھتی۔ ’’اس لئے اب تھوڑا وقت دیں۔ تبدیلی ایسے ہی آتی ہے، اور ایسے ہی آئے گی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے اہم کردار کن افراد کا ہوتا ہے؟ ایک وہ جو ذہین ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ان ذہین افراد کی قدر کرتے ہیں۔یورپین بزنس ایڈمنسٹریشن کے مطابق دنیا کے 120 ذہین ممالک میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔ جی ہاں چوتھا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، مگر ہم اس سے بے خبر ہیں، کیوں؟ ہمارے دانشور اگر اس طرح کی خبروں پر تبصرے شروع کر دیں گے تو ان کا خوف، نفرت اور مایوسی کا

کاروبار ٹھپ نہیں ہوجائے گا؟ ہمیں اب ذہین لوگوں سے زیادہ ان کی ضرورت ہے جو پوری قوم کو احساس دلائیں کہ آپ حقیرکیڑے نہیں ہو، انسان ہو۔ آپ نے پہلے بھی دنیا بھر میں نام روشن کیا ہے، تم آج بھی نام روشن کر رہے ہو، اور کل بھی کرو گے۔ آپ میں اورترقی یافتہ ممالک میں یہی تو فرق یہ ہے کہ وہ ہماری ذہانت اور نمایاں کارکردگی پر پوری نظر رکھتے ہیں، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ہماری قدر کرتے ہیں۔ لیکن ہم خود ہی اپنی قدر نہیں کرتے

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.