ذیشان کی والدہ نے حکومت کی جانب سے دی جانیوالی آفر کا بتا دیا
سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے ذیشان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہم اللہ کی رضا میں خوش ہیں ، ہمارے بیٹے کی شہادت ایسے ہی لکھی ، ہمیں صرف ایک بات کا دُکھ ہے کہ اُسے دہشتگرد قرار دے دیا گیا ہے۔ میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب ہمارے گھر آئے اور آ کر تعزیت کرنے کی بجائے کہا کہ ہاتھ اُٹھائیں اور دعا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انہوں نے کہا کہ آپ دو کروڑ لے لیں ، تین کروڑ لے لیں ، ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اپنا سارا گھر دے دیتے ہیں، یہ لوگ بے شک ہمارے گھر کے پیسے ڈیم میں ڈال لیں، اُس کے لیے بھی صدقہ جاریہ ہو
جائے گا، لیکن کیا پیسوں سے ہمارا بچہ واپس آ سکتا ہے؟ حکومت مدینے کی ریاست کہتی ہے تو ہمیں بتائے کہ کیا مدینے کی ریاست والے ایسے کرتے تھے؟حضرت عمر فاروق ؓ لوگوں کے گھر جا کر اُن سے حال احوال پوچھتے تھے، لیکن گورنر پنجاب ہمارے گھر آ کر دعا مانگ کر ایسے نکل گئے ہیں جیسے چور نکلتے ہیں۔ انہوں نے اتنا بھی نہیں پوچھا کہ آپ کے بیٹے کو کیا ہوا تھا ، وہ کیا کرتا تھا۔ اگر انہوں نے آ کر مجھ سے اتنا بھی نہیں پوچھا تو پھر وہ کیاکرنے آئے تھے،میرے بیٹے نے جانا تھا وہ چلا گیا ہم اللہ کی رضا میں راضی ہیں لیکن اُس کی ایک بیٹی ہے ، لوگ اُسے دہشتگرد کی بیٹی کہیں گے، مجھے دہشتگرد کی ماں کہیں گے۔
مان لیا وہ دہشتگرد ہے ، وہ ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہتا تھا، کھاتا پکاتا تھا،ہمیں بھی کھلاتا تھا تو ہم پھر ہم بھی اس کے سہولت کار ہوئے، ایسے تو پھر ہمیں بھی مار دینا چاہئیے۔ ذیشان کی اہلیہ نے کہا کہ میرے شوہر کو جو لوگ دہشتگرد کہہ رہے ہیں ان کو چاہئیے تھا کہ ملک بھر میں اگر اس کے خلاف کوئی ایک مقدمہ بھی درج تھا تو اسے سامنے لایا جاتا۔ جب کلبھوشن کو زندہ گرفتار کر سکتے تھے تو کیا ذیشان کو زندہ گرفتار کرنا پاکستان کی کسی پولیس فورس، کسی ایجنسی کے اختیار میں نہیں تھا؟