نیویارک میں چند دن – جاوید چوہدری
مجھے پچھلے ہفتے چند دن نیویارک میں گزارنے کا موقع ملا‘ میری مصروفیت مین ہیٹن کے پانچویں ایونیو کی 14ویں اسٹریٹ پر تھی‘ صبح سے شام تک زیادہ تر وقت وہاں گزرتا تھا‘ مین ہیٹن کے ہوٹل ناقابل یقین حد تک مہنگے ہیں‘ نارمل ہوٹل میں بھی چار پانچ سو ڈالر میں کمرہ ملتا ہے‘ نیوجرسی نیویارک کی قریب ترین اسٹیٹ ہے‘ دونوں کے درمیان صرف ہڈسن دریا بہتا ہے‘ آپ ٹرین‘ ٹیکسی‘ بس یا فیری کے ذریعے دریا عبور کریں اور نیوجرسی میں داخل ہو جائیں‘ وہاں صورت حال قدرے بہتر ہے‘ شاید اس کی وجہ ٹیکس ہیں‘ نیوجرسی میں ٹیکس کم اور نیویارک میں زیادہ ہیں لہٰذا آپ کو وہاں مناسب ہوٹل مل جاتے ہیں‘ مجھے شکور عالم کی وجہ سے جرسی سٹی کے علاقے نیوپورٹ میں ہوٹل مل گیا‘ شکور عالم 86 سال کے نوجوان ہیں‘ پچھلے بیس سال سے ویلفیئر کے کام کر رہے ہیں‘ پی آئی اے میں ہوتے تھے۔
امریکا میں پوسٹ ہوئے‘ نیویارک میں ریٹائر ہوئے اور پھر امریکا میں ہی ٹک گئے‘ یہ آج کل الخدمت کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کے ساتھ مل کر ’’چھوٹی چھوٹی نیکیاں‘‘ کے نام سے پروجیکٹ چلا رہے ہیں‘ میرا ان سے پہلا رابطہ 2017میں ہوا تھا اور پھر ان کے ساتھ دوستی ہو گئی‘ شکور صاحب ایک پازیٹو اور پریکٹیکل انسان ہیں‘ دوسرے کو اسپیس دیتے ہیں اور اس کے زیادہ سے زیادہ آرام کا خیال بھی رکھتے ہیں‘ نیوپورٹ میں ہوٹل ان کا آئیڈیا تھا‘ ہوٹل کے بالکل سامنے پاتھ ٹرین اسٹیشن تھا‘ میں اسٹریٹ 33 کی ٹرین پر سوار ہوتا تھا اور سات منٹ میں اسٹریٹ 14 پر پہنچ جاتا تھا۔
میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو نیویارک اسٹیٹ اور سٹی کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ نیویارک اسٹیٹ امریکا کی چوتھی بڑی ریاست ہے‘ اس کا کل رقبہ ایک لاکھ 41 ہزار مربع کلو میٹر ہے‘ یہ کینیڈا کی سرحد تک جاتی ہے‘ نیاگرا فال کا امریکی حصہ بھی نیویارک ریاست میں آتا ہے‘ شہر پانچ حصوں میں تقسیم ہے اور یہ تمام حصے تین سو کلومیٹر پر محیط ہیں‘ مین ہیٹن نیویارک اور امریکا کا مہنگا ترین علاقہ ہے‘ یہ جزیرہ ہے اور اس جزیرے پرسیکڑوں فلک بوس عمارتیں ہیں‘ دنیا کے زیادہ تر کھرب پتی مین ہیٹن میں رہتے ہیں یا پھر ان کے ہیڈکوارٹرز یہاں ہیں‘ شہر کا یہ حصہ ایونیوز اورا سٹریٹس میں تقسیم ہے۔
اس بندوبست کو ’’گرڈ‘‘ کہا جاتا ہے‘ مین ہیٹن شمال سے جنوب 12 جب کہ مشرق سے مغرب 155 حصوں (بعض جگہوں پر 214) میں تقسیم ہے‘ شمال سے جنوب چلنے والی سڑکیں ایونیو کہلاتی ہیں اور یہ تعداد میں 12 ہیں جب کہ مشرق سے مغرب گلیاں (اسٹریٹس) ہیں اور یہ 155 سے لے کر 214 تک ہیں‘ یہ انتظام اس قدر آسان اور خوب صورت ہے کہ ہر گلی ہر ایونیو سے ہو کر گزرتی ہے یعنی اگر آپ 14ویں اسٹریٹ پر ہیں تو یہ گلی ایک سے لے کر 12ویں ایونیو تک جائے گی اسی طرح ہر ایونیو بھی تمام گلیوں سے گزرے گا لہٰذا آپ اگر کسی ایونیو پر چلنا شروع کر دیں تو یہ 214 گلیوں کو چھو کر گزرے گا‘ اسی طرح اگر آپ کسی گلی میں واک شروع کر دیں تو یہ تمام ایونیوز کو کراس کرے گی۔
نیویارکر نمبرز میں اوپر جانے والے ایونیوز اور گلیوں کو اپ (UP) اور کم ہونے والوں کو ڈاؤن کہتے ہیں‘ مثلاً آپ اگر تین نمبر ایونیو سے چار‘ پانچ یا چھ کی طرف جائیں گے تو یہ اپ ہو گا اور اگر آپ بارہ سے نیچے کی طرف آئیں گے تو یہ ڈاؤن سمجھا جائے گا‘ گلیوں کی صورت حال بھی یہی ہے اگر گلیوں کا نمبر بڑھ رہا ہے تو یہ اپ ہو گا اور اگر نمبر کم ہو رہے ہیں تو یہ ڈاؤن ہو گا‘ اس سسٹم کی وجہ سے آپ مین ہیٹن کے کسی بھی اسٹیشن‘ عمارت یا ایڈریس پر آسانی سے پہنچ سکتے ہیں‘ مین ہیٹن کی طویل ترین گلی براڈوے کہلاتی ہے‘ یہ 33 کلو میٹر لمبی ہے اور امریکا کے تمام پرانے‘ بڑے اور مہنگے تھیٹر‘ سینما ہالز اور شوز اسی سڑک پر ہوتے ہیں‘ دنیا کا مشہور ترین چوک ’’ٹائم اسکوائر‘‘ بھی اسی سڑک پر ہے‘ پورا مین ہیٹن زیر زمین ٹرین سسٹم سے جڑا ہوا ہے‘ اس سسٹم کو پاتھ ریل نیٹ ورک نیوجرسی سے جوڑتا ہے‘ آپ کو جگہ جگہ پاتھ اسٹیشن مل جاتے ہیں یعنی آپ مین ہیٹن کے کسی بھی علاقے سے نیوجرسی جا سکتے ہیں‘ امریکا میں زیرزمین ریلوے ’’ سب وے‘‘ کہلاتا ہے‘ 34 ویں اسٹریٹ پر ریلوے کا مرکزی اسٹیشن ہے‘ یہ پین (Penn) اسٹیشن کہلاتا ہے یہاں سے پورے امریکا کے لیے ٹرینیں ملتی ہیں‘ یہ اسٹیشن پورا شہر ہے۔
ایک ایک منٹ میں یہاں سے بیس بیس ٹرینیں نکلتی ہیں‘ میں ٹائم اسکوائر پہنچنے کے لیے نیوپورٹ سے 33 اسٹریٹ کی ٹرین لیتا تھا‘ 33 ویں اسٹریٹ پر اترتا تھا اور 42 ویں اسٹریٹ کی طرف چلنا شروع کر دیتا تھا‘ 42 ویں اسٹریٹ سے ٹائم اسکوائر شروع ہو جاتا ہے اور یہ 45 ویں اسٹریٹ تک جاتا ہے‘ یہاں دن رات رونق اور ہنگامہ رہتا ہے‘ نیویارک آنے والا ہر سیاح ٹائم اسکوائر اور براڈوے ضرور جاتا ہے‘ شہر کا یہ علاقہ 24 گھنٹے آباد رہتا ہے‘ براڈوے کے تھیٹرزیہیں ہیں اور بلند عمارتوں پر بڑی بڑی اسکرینیں بھی یہیں لگی ہیں‘ ٹائم اسکوائر میں دو میوزیم ضرور دیکھنے چاہئیں‘ پہلا میوزیم ’’رائز این وائے‘‘ اور دوسرا ’’میوزیم آف براڈ وے‘‘ ہے‘ رائز این وائے میں نیویارک کی ڈویلپمنٹ کی ہسٹری ہے‘ اس کا آخری حصہ حیران کن ہے‘ سیاحوں کو ایک ٹرالی میں بٹھا دیا جاتا ہے اور پھر پورے شہر کا’’ فور ڈی‘‘ نظارہ کرایا جاتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے آپ چھتری میں بیٹھ کر نیویارک کی فضا میں جھول رہے ہیں‘ یہ حصہ اس قدر ’’پرفیکٹ‘‘ ہے کہ پانی کے قریب سے گزرتے ہوئے آپ کے منہ پر چھینٹے پڑتے ہیں‘ برف باری میں آپ کو باقاعدہ ٹھنڈ لگتی ہے اور فائر ورکس کے دوران آپ اپنے کپڑوں کو آگ سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسرا میوزیم براڈوے کی تاریخ سے متعلق ہے‘ نیویارک میں پہلا تھیٹر 1750میں شروع ہوا تھا‘ میوزیم میں اس سے لے کر جدید ترین تھیٹرز کی تاریخ دکھائی جاتی ہے‘ آپ کو یہاں کام یاب ترین ڈراموں کے مختلف کرداروں کے کاسٹیوم بھی ملتے ہیں اور پہلے بلب سے لے کر کیمرے تک کا سفر بھی۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے بجلی‘ بلب‘ مائیک‘ کیمرے‘ ریڈیو‘ سینما اور ٹی وی نے نیویارک میں جنم لیا تھا لہٰذا آپ کو ان سب کی تاریخ میوزیم آف براڈوے میں ملتی ہے‘ میں نے پورا دن رائز این وائے اور میوزیم آف براڈوے میں گزارہ۔ امریکا بلکہ دنیا کے سب سے زیادہ کھرب پتی مین ہیٹن کی 57 اسٹریٹ میں رہتے ہیں‘ یہ اسٹریٹ سینٹرل پارک کے ساتھ ہے چناں چہ اس کی زیادہ تر اپارٹمنٹس کی عمارتیں سینٹرل پارک کی طرف کھلتی ہیں‘ اسٹریٹ 57 کی تمام عمارتیں انتہائی مہنگی ہیں‘ یہاں 10 سے لے کر50 ملین ڈالر تک کے فلیٹس ہیں‘ یہاں کے زیادہ تر لوگ پرائیویٹ سیکیورٹی کے ساتھ واک کرتے ہیں‘ آپ کو سینٹرل پارک میں بھی پرائیویٹ سیکیورٹی کے درمیان بھاگتے ہوئے لوگ نظر آ جاتے ہیں‘ ہالی ووڈ کے ایکٹرز بھی یہاں رہتے ہیں۔
میں 2017 میں آخری مرتبہ نیویارک آیا تھا تو مین ہیٹن میں حلال فوڈ تلاش کرنا پڑتا تھا لیکن اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے‘ کارپوریشن نے ’’فوڈکارٹس‘‘ کی اجازت دے دی ہے لہٰذا آپ کو ہر اسٹریٹ پر درجنوں فوڈ کارٹس مل جاتی ہیں اور اکثر کے اوپر حلال لکھا ہوتا ہے‘کارٹس کے مالکان بھی عموماً مسلمان ہوتے ہیں‘یہ مصری‘ شامی‘ عراقی اور ترک ہیں‘ آپ ان سے برگر بھی خرید سکتے ہیں‘ ہاٹ ڈاگ بھی اور چاول کباب بھی‘ مسافر عموماً دس سے بارہ ڈالر میں ایک وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں‘ اس سے سیاحوں بالخصوص مسلمان سیاحوں کو بہت فائدہ ہوا‘ میرا زیادہ تر وقت پانچویں ایونیو اور 14 ویں اسٹریٹ پر گزرتا تھا‘ یہاں فوڈ کارٹس زیادہ تھیں‘ اس کی وجہ اسٹوڈنٹس اور یونین اسکوائر ہے‘ پانچویں ایونیو اور 14 نمبر گلی میں درجن بھر پرائیویٹ یونیورسٹیز کے کیمپس‘ کالج اور اسکولز ہیں اور ان میں پوری دنیا کے طالب علم پڑھتے ہیں۔
یونیورسٹی آف نیویارک کا کیمپس بھی قریب ہے‘ دوسرا یونین اسکوائر میں ہر وقت کوئی نہ کوئی احتجاج چلتا رہتا ہے لہٰذا یہاں ہجوم رہتا ہے اور اس ہجوم کی وجہ سے فوڈ کارٹس کا کاروبار چلتا رہتا ہے تاہم میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں یہ کاروبار کیوں کہ مسلمان بھائیوں کے ہاتھ میں ہے چناں چہ یہ داؤ لگاتے دیر نہیں لگاتے‘ آپ اگر ان سے ریٹ نہیں پوچھیں گے یا بقایا لیتے ہوئے نوٹ نہیں گنیں گے تو پھر آپ کے ساتھ ہیرا پھیری ضرور ہو گی لہٰذا احتیاط کریں‘ یونین اسکوائر 14ویں اسٹریٹ اور پانچویں اور چوتھے ایونیو کے درمیان ہے‘ اس پر ہر وقت کوئی نہ کوئی مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔
میں نے یہاں روزانہ غزہ کی حمایت میں مظاہرے دیکھے‘ مجھے یہاں بنگلہ دیش کے ہندو بھی مظاہرے کرتے ہوئے ملے‘ یہ بنگالی زبان میں ’’بنگلہ دیشی مسلمانوں سے ہندوؤں کو بچائیں‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے‘ میں بڑی دیر ان کے ساتھ کھڑا رہا اور ان سے پوچھتا رہا ‘تم لوگ 1970 میں مغربی پاکستان کے مسلمانوں سے پناہ مانگ رہے تھے اور آج اپنے بنگالی بھائیوں سے بچتے پھر رہے ہو تم بھی کتنے عجیب لوگ ہو اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ یونین اسکوائر میں شام کے وقت مختلف بینڈز بھی آ جاتے ہیں‘ یہ میوزک بجاتے ہیں اور لوگ ان کی موسیقی اور رقص کو انجوائے کرتے ہیں‘ یونین اسکوائر میں شطرنج کے کھلاڑی بھی عام ہیں‘ یہ میز پر شطرنج سجا کر سیاحوں کو بازی کی دعوت دیتے ہیں اگر سیاح ہار جائے تو اسے دس بیس ڈالر دینا پڑتے ہیں اور اگر کھلاڑی ہار جائے تو یہ مسکرا کر منہ دائیں بائیں کر لیتا ہے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Newyork main Chand Din By Javed Chaudhry
Comments are closed.