نگران حکومت اور عوام – عبدالقادر حسن
عوام احتساب چاہتے ہیں اور بلا تفریق احتساب چاہتے ہیں انتخابات ان کی خواہش نہیں تھی لیکن چونکہ حکومت کا معینہ وقت مکمل ہو گیا تھا اس لیے انتخابات ہو رہے ہیں اور احتساب کا عمل بھی جاری ہے فی الحال صرف سابقہ حکمرانوں کا احتساب ہو رہا ہے، میاں نواز شریف جیل میں ہیں جیل ان کے لیے نئی نہیں اس سے پہلے بھی وہ جیل کے در و دیوار سے مانوس ہیں۔
احتساب کے نام پر ان کو جیل بجھوایا گیا ہے حالانکہ وہ چاہتے تو سمجھوتہ ہو سکتا تھا لیکن اس دفعہ انھوں نے انکار کر دیا۔ سیاسی طور پر شاید وہ یہ بہتر سمجھتے ہوں کہ جیل میں رہ کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکتی ہیں یا پھر وہ اپنی دولت کی حفاظت کے لیے عمر کے اس حصے میں جیل میں ہیں جب ان کو اپنی دولت کے بل بوتے پر آرام دہ زندگی گزارنی چاہیے۔ جیل میں جتنی بھی آسانیاں اور آسائشیں فراہم کر دی جائیں ایک مخصوص پیمائش کی کوٹھری میں ہی قید رہنا ہوتا ہے ۔
عوام احتساب چاہتے ہیں یا نہیں وہ دو وقت کی روٹی ضرور چاہتے ہیں چونکہ ان کا خیال تھا کہ ہماری دو وقت کی روٹی وہ لوگ چھین کر لے گئے جو اسمبلیوں اور وزارتوں میں رہے ہیں اور اب پھر وہی بعینہ وہی لوگ الیکشن میں کھڑے ہو گئے ہیں اس لیے وہ پھر سے مایوس ہیں کہ اگر دوبارہ سے انھی لوگوں نے الیکشن میں منتخب ہو کر دوبارہ سے اسمبلیوں میں آنا ہے تو احتساب کی خواہش فضول ہے کیونکہ ان لوگوں نے دوبارہ سے طاقت حاصل کر لینی ہے اور احتساب کا معاملہ ایک بار پھر ٹھنڈا پڑ جانا ہے دوسرے لفظوں میں احتساب کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا جانا ہے۔
اس لیے عوام احتساب کی خواہش سے توبہ و تائب ہو گئے ہیں ۔ نگران حکومت جب سے انتخابات کی نگرانی کے لیے آئی ہے عوام حکمرانوں کے احتساب کے نعرے بلکہ وہ نگران حکومت سے معافی مانگتے ہیں کہ انھوں نے سرکار کی اندرونی خواہشات کے برعکس احتساب کا نعرہ لگایا ہی کیوں تھا جس کی سزا ہر روز گرانی کی صورت میں مسلسل ملتی چلی جا رہی ہے اور اب تو بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے جو وہ نگران حکومت سے لگائے بیٹھے تھے کہ نگران دور میں کم از کم ان کو سکھ کا سانس نصیب ہو گا لیکن اس کے برعکس جتنی مہنگائی اس نگران دور میں ہورہی ہے اس کا مقابلہ کسی منتخب حکومت کے ساتھ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ منتخب حکومتیں بتدریج عوام کو مہنگائی کے چنگل میں پھنساتی ہیں لیکن موجودہ نگران حکومت نے تو تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، پاکستانی روپے کی مسلسل بے قدری مہنگائی کا عفریت ساتھ لا رہی ہے ۔
امیر لوگوں کے لوٹ مار کے پیسے کو قانونی بنانے کے لیے سرکار کی جانب سے ایک اسکیم کا اعلان کیا گیا کہ چند فیصد سرکاری خزانے میں جمع کرا کے لوٹ مار کر کے بنائی گئی دولت کو قانونی دولت میں بدل لیں لیکن اب ایف بی آر کی چیئرپرسن نے اعلان کیا ہے کہ ہماری یہ اسکیم بھی ناکام ہو گئی ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہمارے اوپر مسلط اشرافیہ اپنی رتی برابر دولت بھی عوام کے لیے وقف کرنے کو تیار نہیں یعنی وہ حکومتی خزانے میں اپنی لوٹ مار کی رقم کا چند فیصد بھی جمع کرانے کو تیار نہیں ۔ حکومتی خزانہ میں اضافہ عوام کے مفاد میں ہوتا ہے لیکن ہماری اشرافیہ نے اپنی روائتی ہٹ دھرمی اور بدمعاشیہ کا کردار ادا کیا ہے اور حکومت کی جانب سے اپنی غیر قانونی دولت کو قانونی دولت میں تبدیل کرنے کی سہولت استعمال کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
ایک مجبور بے بس اور لاچارپاکستانی کی حیثیت سے عرض کرتا ہوں کہ ہمارے نگرانوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ جو کچھ انھوں نے کیا یا کر رہے ہیں یہ ہمارے ساتھ سخت زیادتی ہے ۔ ہمارے نگران حکمران عوام کو مختلف قسم کے لوگ لگے تھے ان میں سے زیادہ تر نئے لوگ تھے اور کچھ ایسے بھی جن کی شہرت اچھی تھی انھوں نے اچھی اچھی باتیں بھی کیں لیکن یہ بھی پرانے حکمرانوں کی روش پر ہی چل نکلے۔
عوام جنھیں اسرار حکومت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا انھیں بتایا گیا ہے کہ ان کا ملک کتنا غریب اور فقیر ہو چکا ہے ورنہ عوام تو اراکین اسمبلی افسروں اور دوسرے حکمرانوں کی آن بان دیکھ کر یہی سمجھتے رہے تھے کہ سب خیریت ہے اور خزانہ خالی نہیں ہے ورنہ یہ ٹھاٹ باٹ کیسے ممکن تھے ۔ہمارے حکمران اپنے اقدامات سے ہمیں بتا رہے ہیں کہ جن لوگوں کو عوام خوشحال بلکہ بہت ہی خوشحال دیکھ رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو ان کا مال کھا کر خوشحال ہو گئے ہیں اس لیے ان سے لوٹا ہوا مال وصول کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ۔ عوام ایسی باتیں بارہا سن کر تنگ آچکے ہیں اور وہ اب ان باتوں پر بالکل بھی اعتبار نہیں کرتے بلکہ اگر ان کو کوئی ایسی باتیں سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ اس سے الجھ پڑتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات اچھی جانتے ہیں کہ یہ احتساب وغیرہ سب دلفریب باتیں ہیں ان سے حاصل وصول کچھ نہیں ہونا ۔
نگران حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح عوام کے ساتھ ایسا کیوں کیا میرے پاس اس سوال کا کوئی واضح جواب تو نہیں ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نگران بھی درحقیقت خود اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو اس قوم کا اجتماعی ملزم ہے۔ اگر اس جم غفیر میں کوئی ایک آدھ نیک نام ہے اور نگران حکومت میں شامل ہے تو اس کی دیانت نے ماضی میں کیا کر لیا جو اب کچھ کر سکے گا۔ عوام کو ہر حکمران نے ڈسا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے نہ جانے کب تک یہ ڈسے جانے کا سلسلہ چلتا رہے گا لگتا یوں ہے کہ ہمارے اعمال ایسے ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں حکمران بھی اسی طرح کے مل رہے ہیں ۔ اللہ ہماری خطائیں معاف فرمائے اور ہمیں نیک حکمران اور عوام دوست حکومت نصیب ہو۔
Must Read Urdu column Nigran hukoomat aur awam By Abdul Qadir Hassan
source: Express