پچھتاوؤں سے ملاقات- حامد میر
آج کل کچھ ادھوری ملاقاتوں کی ادھوری کہانیوں نے پاکستان کی سیاست میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اس تہلکے کا آغاز کچھ دن پہلے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر سے ہوا تھا۔
نواز شریف نے تو صرف ایک تقریر کی لیکن عمران خان کی حکومت کے وزراء کو اس ایک تقریر کے اثرات زائل کرنے کیلئے روزانہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تقریر کرنا پڑتی ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید ہر دوسرے دن کسی نہ کسی ملاقات کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں جس کا مقصد اپوزیشن کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ شیخ رشید احمد کچھ ایسی ملاقاتوں کا ذکر بھی کر رہے ہیں جن میں وہ خود موجود نہیں تھے۔ اُن ملاقاتوں کی ادھوری کہانیاں سن کر مجھے حبیب جالب کی ایک نظم ’’ملاقات‘‘ کا یہ شعر یاد آ گیا:
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
شیخ صاحب آج کل جن ملاقاتوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اُن ملاقاتوں میں واقعی حالات کا ماتم کیا جا رہا تھا اور ایسی ہی ایک ملاقات میں مولانا فضل الرحمٰن کے ماتم میں کچھ شدت پیدا ہو گئی تو اِس شدت کو کم کرنے کیلئے اُنہیں پرفیوم کا ایک تحفہ میں دیا گیا۔ اِس تحفے کو مولانا نے بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔
جب بھی اُنہیں کچھ غصہ آتا ہے تو اُن کا ایک شرارتی مہربان بڑے احترام سے نظریں جھکا کر اُن کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ حضور وہ جو پرفیوم ہے نہ اس کا کچھ چھڑکائو کر لیجئے۔ یہ مشورہ سن کر مولانا مسکرا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں تو عطر کی عادت ہے، ہم پرفیوم استعمال نہیں کرتے۔
بہرحال اِس پرفیوم کا قصہ بڑا دلچسپ ہے شاید مولانا فضل الرحمٰن اسے اپنی زبان پر نہ لائیں لیکن مولانا عبدالغفور حیدری اس قصے کو زبان پر لاتے لاتے رہ گئے۔ شیخ صاحب نے مولانا فضل الرحمٰن کی جس ملاقات کا شور مچایا، وہ کم از کم ایک سال پرانی ہے اور اِس ملاقات کا مقصد مولانا کو اسلام آباد میں دھرنے سے روکنا تھا لیکن مولانا باز نہ آئے۔ بقول حفیظ جالندھری:؎
یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے
بات ہوتی ہے مگر بات نہیں ہوتی ہے
اِس ملاقات میں کوئی بات نہ بنی تو پھر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی والوں سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور اُنہیں مولانا کے دھرنے میں شرکت سے روک لیا گیا۔ یہ ملاقاتیں اتنی بڑھیں کہ امیر منیائی کے دیے گئے اس مشورے کا بھی خیال نہ کیا گیا:
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیر
قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا
اس روز کے آنے جانے سے کچھ لوگ اپنی قدر کھو بیٹھے۔ اُن پر قائم مقدمات کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کی تقریر کے بعد صرف محمد زبیر کی دو ملاقاتوں کا راز طشت ازبام کیا گیا۔
محمد زبیر کے اور ساتھیوں نے بھی ایسی ملاقاتیں کی تھیں لیکن اُن کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ اب نواز شریف صاحب نے ایسی خفیہ ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی ہے لیکن واٹس ایپ کال کی سہولت سے بدستور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ شکیل بدایونی نے کہا تھا:
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
تو جناب ملاقاتیں روز ہو رہی ہیں لیکن اُن ملاقاتوں میں وہ باتیں نہیں ہو رہیں جو اِن ملاقاتوں کے مقاصد کو مکمل کر سکیں۔ نواز شریف کی پابندی کے باوجود اُن کی جماعت کے کچھ لوگ ایک اہم ملاقات کے انتظار میں ہیں۔ اِن کی حالت فیض احمد فیض کے اس شعر کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہے:
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
دوسری طرف مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے اہم قائدین مولانا فضل الرحمٰن کی اس رائے سے اتفاق کرنے لگے ہیں کہ بہت ملاقاتیں ہو چکیں، اب ہمیں ملاقاتیں چھوڑ کر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے اور کچھ سیاسی رازوں میں عوام کو شریک کر لینا چاہئے۔
شیخ رشید مزید کتنی ملاقاتوں کا بھانڈا پھوڑیں گے؟ اگلے دن انہوں نے نواز شریف سے دس سوال پوچھے ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ اسامہ بن لادن سے آپ کی کتنی ملاقاتیں ہوئیں اور آپ نے اسامہ سے کتنا چندہ وصول کیا؟ شیخ صاحب بھول گئے کہ یہ وہی اسامہ بن لادن ہیں جنہیں کچھ ہفتے قبل جون 2020میں وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے شہید قرار دیدیا تھا۔
جس ملاقات کے متعلق شیخ رشید احمد نے سوال پوچھا ہے اُس ملاقات کے بارے میں ایک دفعہ میں نے بھی اسامہ بن لادن سے انٹرویو کے دوران سوال پوچھا تھا۔ اسامہ بن لادن نے آن دی ریکارڈ تو کوئی جواب نہ دیا البتہ آف دی ریکارڈ جو بتایا اس سے میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس معاملے پر نواز شریف کو پہلے بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی کو اچھا لگے یا بُرا لگے، مجھ ناچیز کو 1998میں مولانا فضل الرحمٰن کے وہ جلسے یاد ہیں جو افغانستان پر امریکی میزائل حملوں کے خلاف کئے گئے اور اُن جلسوں میں مولانا صاحب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف پر وہی الزامات لگایا کرتے تھے جو الزامات وہ آج کل عمران خان پر لگاتے ہیں۔
اُن جلسوں میں حافظ حسین احمد یہی سوال پوچھتے تھے جو اب شیخ رشید احمد نے پوچھا ہے۔ 1999میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل پرویز مشرف نے اس معاملے کی تحقیقات کرائیں کہ اسامہ بن لادن نے نواز شریف کو کب، کیوں اور کتنے پیسے دیے تھے۔ یہ تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہی بند کرا دی گئیں کیونکہ معاملہ کسی اور طرف نکل گیا تھا۔ شیخ صاحب تو مشرف حکومت میں بھی وزیر تھے۔
اس معاملے پر اس دور میں وہ خاموش رہے۔ اب اگر اس معاملے پر انہیں کوئی جواب چاہئے تو وزیراعظم عمران خان سے کہہ کر پرانی فائلیں کھلوا لیں اور نواز شریف پر ایک نیا مقدمہ بھی بنوا دیں۔ کہیں وہ نہ ہو جائے جو اصغر خان کیس میں ہو گیا۔ حکومت بھی اپنی اور ایف آئی اے بھی اپنی، جب سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ جن سیاست دانوں نے 1990میں آئی ایس آئی سے پیسے لئے ایف آئی اے اس کے ثبوت لیکر آئے تو عمران خان کے دور میں ایف آئی اے نے عدالت میں کہا کہ ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔
عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اختلاف ضرور کریں لیکن اختلاف کو انتقام نہ بنائیں کیونکہ جب انتقام کی آگ ہر طرف پھیل جائے تو پھر صرف دشمن نہیں دوست بھی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور جب سارے ہی اس آگ میں جل جائیں تو پھر کوئی کسی سے ملاقات کے قابل نہیں رہتا۔ پھر صرف پچھتاووں سے ملاقات ہوتی ہے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Pachtaon se Mulaqat By Hamid Mir