پاکستان ایک نشہ ہے – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کی اسمبلی نے ایک ایسا قانون پاس کیا ہے جس نے نہ صرف کینیڈین معاشرے میں تہلکہ مچا دیاہے بلکہ کینیڈا کے عوام کےلئے بھی شدید حیرانی کا باعث بناہے۔ اس قانون نے کئی ہزار لوگوں سے اُن کا ایک بنیادی حق چھین لیا ہے اور یہ سب آئین کے تحت جائز بھی تھا۔ اس قانون کی منظوری نے ایک ایسی خطرناک مثال قائم کر دی ہے جس نے لوگوں سے ان کے بنیادی حقوق چھیننا آسان بنا دیاہے۔

امریکہ اور کینیڈا کے آئین میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ امریکہ کے آئین میں ہر انسان کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ پیدا ہوتا ہے اور ریاست اُن حقوق کی محافظ ہوتی ہے جب کہ کینیڈا کا آئین کہتا ہے کہ بنیادی حقوق تو ہر انسان کے ہوتے ہیں لیکن یہ ریاست (ملکہ یا بادشا ہ )کی طرف سے رعایا کو دیے جاتے ہیں۔ اسی لئے صوبائی اسمبلی یا پارلیمنٹ چاہے تو واضح اکثریت کے ساتھ ان حقوق کو پانچ سال کے لئے معطل بھی کر سکتی ہے۔ ویسے تو مہذب ممالک میں ایسا وقت کم ہی آتا ہےلیکن پولرائزیشن اور ایک ایسا سیاسی ماحول جونہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں رولز آف گیم تبدیل کر رہا ہے ، وہاں اس کا استعمال حیران کن نہیں ہونا چاہئے ، لیکن اس قانون کے استعمال کے اثرات بہت زیادہ تشویشناک ثابت ہوتے ہیں۔ اونٹاریو کی صوبائی اسمبلی نے یہی کیا اور ا سکول ا سٹاف کے مطالبات ماننے کے بجائے اُن کے احتجاج اور ہڑتال کرنے کے بنیادی حق کو معطل کر دیا اور ایسا کرنے والے پر چار ہزار ڈالر یومیہ جرمانہ عائد کر دیا، جو ایک متوسط کینیڈین شہری کی ایک مہینے کی اجرت سے بھی زیادہ ہے۔

اونٹاریو میں جب یہ سب چل رہا تھا تو یہاں پاکستانی کمیونٹی کی ایک میٹنگ کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میںمیَں آج کل کینیڈا میں مقیم ہوں۔اس میٹنگ میں ایسے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو عرصۂ درازسے کینیڈا میں مقیم ہیں اور یہاں کی شہریت بھی رکھتی ہے، اُن کے بچے بھی یہیں پیدا ہوئے اور یہیں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ میں اونٹاریو کی اس خبر کو بڑے غور سے فالو کر رہا تھا کیونکہ یہاں خبریں پاکستان جیسی چٹ پٹی نہیں ہوتیں ، اس لئے یہ ماجرا بہت بڑی خبر بن چکا تھا۔ میں سارے راستے اس حوالے سے اپنے سوالات تیار کرتا رہا کہ کینیڈا میں مقیم پاکستانی اس مسئلے کو کیسے دیکھتے ہیں اور اس کا پاکستان سے کیسے موازنہ کرتے ہیں؟میں جب اس میٹنگ میں پہنچا تو مجھے حیرانی اس بات پر نہ ہوئی کہ وہاں گپ شپ پاکستانی سیاست کے بارے میں ہو رہی تھی بلکہ اس بات پر ہوئی کہ کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ یہاں کیا ہوا ہے اور کسی کو یہ جاننے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی۔ اُنہیں محض یہ معلوم تھا کہ اسکول بند ہیں لیکن اس کے پردے میں اُن کے بنیادی حقوق پرجو حملہ ہورہا تھا، اُس سے وہ لاعلم، لاتعلق اور لاپروا تھے۔

اُس میٹنگ میں عمران خان، مقتدرہ، رجیم چینج، امپورٹڈ حکومت اور چور کے الفاظ اس تواتر سے سننے کو ملے کہ سننے والوں کے کان پک گئے لیکن بولنے والے تھے کہ تھکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ یہاں کینیڈین پاکستانی یا پاکستانی کینیڈین اپنے بنیادی حقوق کے مطالبے کےلئے تو کسی احتجاج کے لئے کبھی باہر نہیں نکلے جبکہ کینیڈین کمیونٹی سراپا احتجاج ہے، لیکن اُس کے برعکس عمران خان پر ہونے والے حملے کی مذمت کے لئے پاکستانی کمیونٹی نہ صرف بڑی تعداد میں سراپا احتجاج تھی بلکہ ہر جاننے والے کو اپنی شرکت یقینی بنانے کا پابند بنا رہی تھی۔

اوورسیز پاکستانی ہمارے بھائی ہیں اور ملکی معیشت کے لئے اُن کی بے پناہ خدمات ہیں لیکن جہاں چند روز قبل ایک جنوبی ایشیائی شہری رشی سوناک برطانیہ کے وزیراعظم بنے ہیں، گوگل سمیت بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو بھارتی ہیں، امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں مقامی سطح سے لے کر کیبنٹ تک بھارتی نظر آتے ہیں۔ کینیڈا کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے سربراہ بھی ایک سکھ جگمیت سنگھ ہیں جب کہ پاکستانی اس میدان میں بھارتیوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں، اس کی وجہ قابلیت کی کمی نہیں بلکہ بے مقصدموضوعات پر اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ دہری شہریت بھی ہے جب کہ بھارت اپنے شہریوں کو دہری شہریت رکھنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لئے جب وہ امریکہ، کینیڈا یا کسی اور ملک کی شہریت حاصل کرتے ہیں تو انہیں بھارتی شہریت چھوڑنا پڑتی ہے، ایک طرح سے انہیں اپنی کشتیاں جلانا پڑتی ہیں۔ اس کے برعکس میں یہاں جن اوورسیز پاکستانیوں سے ملا، اُن میں سے 90فیصد اسی کشمکش میں مبتلا نظر آئے کہ ہمیشہ کے لئے کینیڈا منتقل ہو جائیں یا کینیڈین شہریت لینے کے بعد واپس پاکستان چلے جائیں۔ وہ ایک پاکستانی سیاسی جماعت کا بیانیہ حقیقت کی طرح قبول کرتے ہیں اور اس شدت سے اُس سیاسی جماعت کے لئے سوچتے ہیں کہ اس کی مثال پاکستان میں بھی نہیں ملتی۔

میں جب اُس میٹنگ سے نکل کر ایک کینیڈین پاکستانی دوست کے ساتھ واپس گھر جا رہا تھا تو میں نے یہی سوالات اور اپنی حیرانی اُس سے بیان کی ۔ اُس کا جواب تھا کہ میں پندرہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہو ں اور ہر روز، ہمہ وقت پاکستان کسی نہ کسی صورت میں میرے دماغ میں گھومتا رہتا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان ایک نشہ ہے ۔ پاکستان میں رہ کر میں اس نشے کو افورڈ نہیں کر سکتا تھا اسلئے میں یہاں آگیااور جب معقول بچت ہوجاتی ہے تو پاکستان کے بارے میں بات کر لیتا ہوں ۔ ایک نشئی اور کر ہی کیا سکتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Pakistan aik Nashaa hai By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.